اسلام آباد ہائی کورٹ کا شیریں مزاری کی رہائی، حکومت کو عدالتی انکوائری کا حکم

اپ ڈیٹ 22 مئ 2022
شیریں مزاری کو عدالت پہنچادیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
شیریں مزاری کو عدالت پہنچادیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کو رہا کرنے اور حکومت کو ان کی گرفتاری کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی درخواست پر انہیں رات ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کا حکم دیا اور وقت پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کو 'گرفتار' کرلیا گیا

شیریں مزاری نے عدالت کو بتایا کہ ‘مجھے موٹر وے پر ایک گھنٹے تک روکے رکھا گیا، ایک مرد ڈاکٹر نے میرے طبی معائنے کی کوشش کی، ان کے ساتھ کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں تھی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اینٹی کرپشن پنجاب کے افسران فون پر ہدایات لے رہے تھے، میرے بیگ کی وارنٹ کے بغیر تلاشی لی گئی اور تاحال میرا فون واپس نہیں کیا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اینٹی کرپشن عہدیداروں کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا اور ممکنہ طور پر آئی ایس آئی کے ساتھ تھا’۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ حکومت نے جبری گمشدیوں پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ واقعات اس وقت پیش آتے ہیں جب آئین کا احترام نہیں ہوتا، ہر حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کے لیے افسوس ناک رویہ اپنایا’۔ شیریں مزاری نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو بتایا کہ وہ 70 سال کی ہیں اور بیمار ہیں لیکن اس کے باوجود ان پر تشدد کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘یہ عدالت انصاف کی فراہمی میں سمجھوتہ نہیں کرے گی، مطیع اللہ جان کے اغوا کی تاحال تفتیش نہیں کی گئی’۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‘ہم 24 گھنٹے کام نہیں کرسکتے، مطیع اللہ جان کا کیس جاری ہے اور جلد ہی اس کی تفتیش مکمل کریں گے’۔

چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

انہوں نے اسلام آباد پولیس کے نئے انسپکٹرجنرل (آئی جی) ڈاکٹر اکبر ناصر خان کو یاد دہانی کروائی کہ ادارے کا سربراہ ذمہ دار ہوتا ہے، ‘ہمیں بتائیں کہ شیریں مزاری کیس کی تفتیش کب تک مکمل کریں گے’۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے جواب دیا کہ ‘میں نے ذمہ داری ابھی سنبھالی ہے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب میں چارج لے رہا تھا’۔

ایڈووکیٹ جنرل نے رات گئے عدالت کے دروازے کھولنے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ‘سیاسی جماعتیں اب تسلیم کریں گی کہ عدالت آئین کی حفاظت کے لیے رات کو بھی موجود ہے’۔

شیریں مزاری کی بیٹی نے عدالت سے استدعا کی کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیں اور چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شیریں مزاری کو رہا کردیا جائے اور اس کی تحقیقات کی جائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو احاطہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔

عدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، آئی جی اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر اور ڈی سی اسلام آباد بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری، فیصل چوہدری، اور فرخ حبیب سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔

میری گرفتاری میں رانا ثنا، شہباز شریف یا ایجنسیاں ملوث ہیں، شیریں مزاری

پولیس نے شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ 'مجھے گاڑی سے گھسیٹا، کوئی وارنٹ نہیں دکھایا اور کچھ نہیں دکھایا اور گرفتار کیا'۔

گرفتاری کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 'یہ مجھے ابھی تک نہیں پتا لیکن یہ مجھے لاہور لے کر جا رہے تھے'۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'میری گرفتاری کے پیچھے مسلم لیگ (ن)، رانا ثنااللہ، شہباز شریف یا پھر خفیہ ادارے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے اوپر جو تشدد کیا گیا ہے، وہ میں عدالت میں بتاؤں گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کتنے لوگوں کو گرفتار کریں گے، پوری قوم ان چوروں کے خلاف نکلی ہوئی ہے، میں تو کہیں جا رہی تھی تو کوہسار تھانے کے یونیفارم پولیس والوں نے میری گاڑی کو روکا اور مجھے گاڑی سے گھسیٹا’۔

شیریں مزاری کو ساڑھے گیارہ بجے پیش کرنے کا حکم

اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف ان کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی تھی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں شیریں مزاری کو آج رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ یہ احکامات پہلے سے موجود ہیں کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور شیریں مزاری اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہیں نشست سے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا تو پھر کس اختیار کے تحت شیریں مزاری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پیش ہو کر بتائیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔

شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کو گھر پر فوری نوعیت کی درخواست سے آگاہ کیا گیا تھا۔

ایمان زینب مزاری نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ میری والدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ناقد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دن کے اجالے میں والدہ کو اٹھایا گیا اور اہل خانہ کو اس سے متعلق کوئی معلومات بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، والدہ کو وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔

ایمان زینب مزاری نے شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی اور درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایچ او تھانہ کوہسار کو فریق بنایا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ والدہ کو زبردستی اٹھائے جانے کی اطلاع پر قریبی پولیس اسٹیشن کوہسار پہنچے تو کسی ایف آئی آر کی معلومات نہیں دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کا شیریں مزاری کی رہائی کا حکم

دوسری جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری، ذلفی بخاری ، فرخ حبیب اور دیگر رہنما بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے تھے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کی حمزہ شہباز کے خلاف مقدمے کے لیے درخواست

پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں عاصمہ قدیر، ظل ہما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی انیتا محسود نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف شیریں مزاری کے ‘اغوا’ کا مقدمہ درج کرانے کے لیے اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں درخواست دائر کردی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا ہے، جس کی ویڈیو بھی موجود ہے، پولیس قواعد کے مطابق اینٹی کرپشن کو متعلقہ تھانے میں آمد اور روانگی سے قبل نوٹ کروانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن نے متعلقہ تھانے کو آگاہ نہیں کیا، اس سارے وقوع کے ذمہ دار حمزہ شہباز ہیں لہٰذا ان کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا جائے۔

شیریں مزاری کے خلاف الزامات

پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزاری کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا ہے کہ شیریں مزاری نے اپنے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شیریں مزاری نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو ‘جعل سازی’ کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کیا۔

دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا اور لہٰذا ‘یہ کمپنیاں بوگس تھیں’۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی ‘جعلی’ منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے شیریں مزاری کی گرفتاری پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت دیگر سیاست دانوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی اور گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دیا گیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں بیان میں شیریں مزاری کی بیٹی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا تھا کہ 'مرد پولیس اہلکاروں نے میری والدہ کو مارا اور اپنے ساتھ لے گئے، مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ انہیں لاہور کا اینٹی کرپشن ونگ اپنے ہمراہ لے کر گیا ہے'۔

شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ '‘مجھے مت چھوئیں‘۔

فوٹیج میں نامعلوم آواز بھی سنی جاسکتی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے’ اور معاملے پر پرامن طریقے سے بات ہوسکتی ہے جبکہ شیریں مزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘آپ وائیلنس کر رہے ہیں، آپ میرا فون نہیں لے سکتے ہیں’۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان زینب مزاری نے کہا کہ غنڈوں کی طرح ایک عورت کو آج اٹھایا گیا نہ اس کے خاندان کو کچھ بتایا گیا تو اگر اس قسم کی حرکتیں کرنی ہیں تو میں اس حکومت کو وارننگ دیتی ہوں کہ میں اس کے پیچھے آؤں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کس کیس میں لے کر جارہے ہیں لیکن میری والدہ کو اس حکومت کی جانب سے جبراً لاپتا کیا گیا ہے مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں خواتین ایک سافٹ ٹارگٹ ہیں تو میں اس حکومت کو ایک واضح پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر میری والدہ کو کچھ ہوا تو میں انہیں چھوڑوں گی نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں