ادارے طاقتور ہونے کا احساس نہ دلائیں، حکومت مدت پوری کرے گی، مولانا فضل الرحمٰن

22 مئ 2022
مولانا فضل الرحمٰن قبائلی جرگے اور تاجروں سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن قبائلی جرگے اور تاجروں سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ملک کی اس مشکل میں سیاستدانوں اور اداروں کو ایک پیج پر مشترکہ اور متفقہ کردار ادا کرنا ہوگا، کوئی اپنی بالادستی یا طاقت ور ہونے کا احساس نہ دلائے، جمہوریت کی کمزوری کا احساس نہ دلایا جائے۔

پشاور میں قبائلی جرگے اور تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک سب کا ہے اگر ملک ڈوبتا ہے تو فوج کا بھی ڈوبتا ہے، بیوروکریسی کا بھی ڈوبتا ہے، فضائیہ کا بھی ڈوبتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی طاقتیں جبر کی بنیاد پر کمزور اقوام پر اپنے فیصلے مسلط کرتی ہیں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر اپنی ہی قوم پر جبری فیصلے مسلط کروانے والی قوم کا مستقبل کیا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ظاہر ہے جو شکایات آج آپ کر رہے ہیں ساری باتیں آپ سے کہی ہیں، مجھے کہا گیا کہ مولانا صاحب آپ تو قبائل کے نمائندے نہیں ہیں آپ کیوں قبائل کی بات کرتے ہیں؟ اور قبائل کے تمام نمائندے ہمارے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے سے کہا گیا کہ قبائل کے 19 نمائندے ہیں جس میں سے 4 آپ کے ساتھ باقی ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان 15 کے ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے ہیں، ابھی ان کے ہاتھ کھول دیں میں پریس کانفرنس کرکے ان 15 افراد سے فاٹا کے انضمام کے خلاف بیان دلواؤں گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'فتنہ عمرانیہ' کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑنا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ میں نے ان کو جواب دیا کہ نوجوانوں کی 3 تنظیمیں ہیں جن میں سے ڈھائی تنظیمیں میرے ساتھ جبکہ آدھی آپ کے ساتھ ہے، جو ڈھائی تنظیمیں ہمارے ساتھ ہیں آپ ان کا مؤقف کیوں نہیں سننا چاہتے۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ رائے کا اختلاف ہوتا ہے تاہم رائے کے اختلاف کا فیصلہ عوام کرتے ہیں، جب پارٹی کے اندر رائے کا اختلاف ہوتا ہے تو پارٹی کا کارکن اختلاف کرتا ہے لیکن یہاں پر جبر کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ بے گھر ہوچکے تھے ان کو اب تک گھر نہیں مل سکا ہے، ان کے گھروں کا سامان ان کو نہیں ملا، جب وہ واپس گئے تو لُٹ چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلی کوچوں میں جنگل اُگ گئے تھے، اس کا بھی کہا گیا کہ خود کاٹو۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آج بھی قبائل پاکستان میں تارکین وطن ہیں، کراچی سے لے کر گلگت اور پنجاب میں قبائل پھیلا ہوا ہے وہ تاحال گھر جانے کے قابل نہیں ہیں، ان کے ساتھ کیوں زیادتی کی گئی؟ کیوں سبز باغ دکھائے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بتایا گیا کہ سالانہ 100 ارب روپے 10 سال تک ایک ہزار ارب دیے جائیں گے، 5 سے 6 سال گزرنے کے بعد بھی 50 سے 60 ارب روپے ملے ہیں۔

مزید پڑھیں: چیف ایگزیکٹو نے ایف آئی اے افسران کو تبدیل کیا، سپریم کورٹ نے سوموٹو کیوں لیا ؟ فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ 50 ارب ملا ہو یا 70 ارب، مجھے کوئی قبائلی بتائے کہ وہ پیسہ کس کو ملا ہے؟ کہاں خرچ ہوا ہے؟ ہاں کچھ خاص علاقے ہیں، ان خاص علاقوں میں سڑکیں بھی بنائی گئی ہیں، ان خاص علاقوں میں قلعے، دو چار مساجد بھی بنائی گئی ہیں۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ جب دنیا کے وفود آتے ہیں تو ان کو وہی لے جاتے ہیں کہ دیکھو کہ قبائل نے کتنی ترقی کرلی ہے جبکہ یہ قبائل کا ایک فیصد حصہ بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پٹواری قبائلی علاقے میں نہیں جاسکتے، زمین کی تقسیم نہیں ہو سکتی، 6 نسلوں سے ہمارا اشتراک چلا آرہا ہے آج کس بنیاد پر اس کو تقسیم کریں گے اور یہ خصوصی حیثیت کیا کسی اور ملک میں علاقوں کو حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سے 80 ملک گنوا سکتے ہیں جن ممالک کے اندر مختلف علاقوں کے مختلف اسٹیٹس ہیں، لوگوں کو ان کی سہولت اور مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جب میں نے کہا کہ عوام سے پوچھو تو مذاق اڑایا جاتا تھا کہ قبائل کون ہوتے ہیں جن سے ہم پوچھیں گے۔

'بلوچستان میں حکومت اسٹیبلشمنٹ کی ہوتی ہے'

انہوں نے کہا کہ بلوچستان، پاکستان میں بعد میں شامل ہوا لیکن آج تک بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے، وہاں کی حکومت کی حیثیت ڈمی ہوا کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ ساڑھے 3 سال میں جو گند ڈالا گیا، 3 دن میں نہیں اٹھایا جا سکتا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ لاکھ دفعہ انضمام ہو لیکن وہاں پر دہشت گردی کے نام پر جو تنظمیں ہیں، وہاں پر جو بندوق کی سیاست چل رہی ہے، پھر اس کے خلاف آپریشن ہوں گے تاکہ پاکستان کی طاقتور قوتوں کو موجود رکھنے کا جواز ملے۔

انہوں نے کہا کہ آپ جمہوری ہوا میں زندگی نہیں گزار سکیں گے بے شک آپ کے منتخب نمائندے ہوں جو بظاہر نظر آئیں گے لیکن جمہوریت کمزور رہے گی، انسانی حقوق پامال ہونگے، اور یہ چلتا رہے گا۔

'فاٹا انضمام پر ریفرنڈم کروا لو'

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ میں پرانی بات دہرا دوں تو پتا نہیں آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟ میری بات نہیں مانی گئی جب کہا کہ قبائل سے پوچھ لو، ریفرنڈم کروا لو، پانچ سال گزرنے کے بعد انضمام کا مزہ آگیا ہوگا، اب تو انضمام کے ذریعے سے خوشحالی آچکی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اب تو قبائلی علاقہ پیرس بن گیا ہوگا، چلو آج ریفرنڈم کروا لو پتا چل جائے گا قبائلی عوام مسترد کرتے ہیں یا قبول، اگر واقعی خوشحالی آئی ہے تو لوگ کہیں گے ہمیں انضمام قبول ہے، عوام کی مرضی جس کا حق انہیں اللہ نے دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اللہ انسان کو فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے تو وہ حق ان سے طاقت ور انسان چھین لیتا ہے۔

'خاص قومیت، زبان بولنے والے سے کیوں زیادتی ہوتی ہے؟'

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ صنعتی مراعات آپ سے چھین لی گئیں، اسی صوبے میں گدون انڈسٹریل زون میں دی ہوئی مراعات چھین لینے کے سبب بیٹھ گیا، یہ ظلم صرف ایک علاقے کے ساتھ کیوں ہوتا ہے، یہ زیادتی پاکستان میں ایک زبان بولنے والوں کے ساتھ کیوں ہوتی ہے؟ یہ زیادتیاں خاص قومیت کے ساتھ کیوں ہورہی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی صنعت کو تباہ کر گیا، صنعت بند ہونے سے پیدواری صلاحیت ختم ہوتی ہے تو پھر بازار میں مال کہاں سے آئے گا؟ اور جب مال آئے گا تو طلب زیادہ رسد کم ہوگی نتیجتاً مہنگائی بڑھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں قبائلی عوام کے مسائل نواز شریف کی حکومت میں اتحادی ہونے کی پروا کیے بغیر لڑ رہا تھا، اب بھی میں آپ کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاؤں گا، ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔

’پی ٹی آئی والے اسلام آباد میں مکھیاں مارنے آئیں گے‘

انہوں نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو لانگ مارچ ہم نے کیے ہیں کسی کا باپ بھی اس کا ریکارڈ نہیں توڑ سکتا، اسلام آباد میں مکھیاں مارنے کے لیے آئیں گے، کون پاکستانی ہوگا جو ملک کی تباہی میں اس کا ساتھ دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں اور اس حالت میں وقت گزار رہے ہیں، ڈالر کے 200 روپے جانے پر ان کی حکومت میں معاشی ماہرین نے بات کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ملک کو اٹھانے کے لیے عوام کی سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، میڈیا کو کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی گفتگو میں سنجیدگی، وقار اور وزن پیدا کرلو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں