بڑھتی قیمتوں، کاشتکاری کے سامان میں کمی سے زرعی شعبہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے، رپورٹ

اپ ڈیٹ 22 مئ 2022
دنیا میں اشیا کی قیمتوں میں اضافے، غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو سکتا ہے — فوٹو: اے پی پی
دنیا میں اشیا کی قیمتوں میں اضافے، غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہو سکتا ہے — فوٹو: اے پی پی

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ’عالمی اقتصادی صورتحال اور امکانات‘ کی پیشن گوئی کے مطابق رواں سال کے وسط تک پاکستان کا زرعی شعبہ بلند قیمتوں اور کھاد سمیت کاشتکاری کے سامان کی کمی کی وجہ سے منفی طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ صورت حال جنوبی ایشیا میں برقرار رہنے کا امکان ہے اور ممکنہ طور پر اس کے نتیجے میں فصلیں کمزور ہوں گی اور پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں قریبی مدت میں خوراک کی قیمتوں پر مزید دباؤ بڑھے گا، رواں ہفتے جاری ہونے والے سروے میں خبردار کیا گیا کہ توانائی کی بلند قیمتوں کے ساتھ ساتھ خوراک کی بلند قیمتیں پورے جنوبی ایشیا میں غذائی عدم تحفظ کو بڑھا سکتی ہیں۔

2022 کے وسط تک عالمی معاشی صورتحال اور امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی امور کے محکمے (ڈی ای ایس اے) نے اپنے سروے میں کہا کہ خطے میں صارفین کے لیے قیمتوں میں افراط زر کی شرح 2022 میں گزشتہ سال کے 8.9 فیصد سے بڑھ کر 9.5 فیصد ہونے کی توقع ہے۔

مزید پڑھیں: کاشت کاروں کو درپیش مسائل پر حکومت اور اپوزیشن ہم آواز

رپورٹ کے مطابق سخت بیرونی مالیاتی حالات علاقائی ترقی کے امکانات کو بری طرح متاثر کریں گے، خاص طور پر ان ممالک کو جن کی عالمی منڈیوں میں زیادہ رسائی ہے اور قرضوں کی پریشانی یا قرضوں کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

عالمی وبائی مرض نے بہت سے ممالک کو بڑے مالیاتی خسارے اور عوامی قرضوں کی اعلیٰ اور غیر پائیدار سطح کا شکار بنا دیا۔

حالیہ مہینوں میں یوکرین میں جاری تنازع کی وجہ سے اشیا کی بلند قیمتوں، امریکا میں مالیاتی سختی کے ممکنہ منفی اثرات کے پس منظر میں جنوبی ایشیا کا منظرنامہ ابتر ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے زرعی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ علاقائی اقتصادی پیداور 2022 میں 5.5 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے جو جنوری میں جاری کی گئی پیش گوئی سے 0.4 فیصد کم ہے۔

بھارت، جو اس خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے اس میں بھی 2022 میں 6.4 فیصد کی ترقی کا امکان ہے جو کہ 2021 کی 8.8 فیصد نمو سے بہت کم ہے، کیونکہ افراط زر میں دباؤ اور لیبر مارکیٹ کی غیر مساوی بحالی نجی کھپت اور سرمایہ کاری کو روک دے گی۔

ڈی ای ایس اے کے سروے نے 2022 میں عالمی نمو کو 3.1 فیصد تک گھٹا دیا ہے جو کہ جنوری میں اس کی پیش گوئی کے مطابق 4 فیصد تھی۔

یوکرین میں جنگ نے کورونا وائرس کے وبائی مرض سے بحالی کو بڑھاوا دیا ہے، جس سے یورپ میں تباہ کن انسانی بحران پیدا ہوا ہے، خوراک اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں مہنگائی کے دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی کی صورتحال کاروباری اعتماد کو کم کر رہی ہے اور قرض لینے کے بڑھتے ہوئے اخراجات سرمایہ کاری کے امکانات کو کمزور کر رہے ہیں۔

عالمی معیشت کو یوکرین میں جنگ کے مزید بڑھنے، وبائی امراض کی نئی لہروں اور ترقی یافتہ معیشتوں میں توقع سے زیادہ تیزی سے مالیاتی سختی سے بڑے منفی خطرات کا سامنا ہے۔

یوکرین میں جاری جنگ اور روس پر عائد اقتصادی پابندیان نہ صرف روس اور یوکرین کی معیشتوں کو بلکہ یورپی یونین سمیت سی آئی ایس کے پورے علاقے اور پڑوسی ممالک کی معیشتوں کو بھی بھاری نقصان پہنچا رہی ہیں۔

یوروپی یونین کی معیشت میں 2022 میں 2.7 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، جو جنوری میں پیش گوئی کے بعد سے 1.2 فیصد کی تیزی سے نیچے کی جانب نشاندہی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے، شیری رحمٰن

امریکا، چین اور یورپی ممالک میں توانائی اور اشیائے خورونوش کی بلند قیمتوں، مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور سست ترقی کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں 2022 میں پیداوار میں 4.1 فیصد اضافے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں مالیاتی سختی ترقی پذیر ممالک کے قرض لینے کے اخراجات میں اضافے اور مالیاتی فرق کو مزید خراب کرنے والی ہے۔

سخت بیرونی مالی حالات ترقی کے امکانات کو بری طرح متاثر کریں گے، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جن کو عالمی سرمایہ منڈیوں میں قرض کی پریشانی کا سامنا ہے، خاص طور پر افریقہ میں خوراک کی عدم تحفظ کے بگڑتے ہوئے حالات میں اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا یے کہ عالمی معیشت کو کافی زیادہ اور مسلسل افراط زر کے دباؤ کا سامنا ہے، عالمی افراط زر 2022 میں 6.7 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے جو گزشتہ دہائی کے دوران اوسطاً 2.9 فیصد سے دوگنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں