وفاقی حکومت کی وزارتوں، صوبوں کو فاضل رقم سے دستبردار ہونے کی ہدایت

24 مئ 2022
پبلک سیکٹر اداروں کو ورکنگ بیلنس رکھنے کی دی گئی منظوری بھی واپس لے لی گئی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
پبلک سیکٹر اداروں کو ورکنگ بیلنس رکھنے کی دی گئی منظوری بھی واپس لے لی گئی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی حکومت نے تمام وزارتوں، محکموں، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ورکنگ کیپیٹل اور سرمایہ کاری کے لیے رکھی گئی فاضل رقم سے دستبردار ہو کر وفاق کے واحد ٹریژری اکاؤنٹ میں جمع کروائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق تمام پبلک سیکٹر اداروں پر بھی ہوگا۔

میمورنڈم کے ذریعے وزارت خزانہ نے ہدایت دیں کہ سپریم کورٹس اور تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار، سینیٹ، قومی اسمبلی، تمام فوجی اداروں کے اکاؤنٹس کنٹرولر کو کہا کہ جولائی 2003 سے جاری تمام نوٹیفیکشن جو اداروں کو فاضل رقم اور ورکنگ کیپیٹل اپنے اکاؤنٹس میں رکھنےکی اجازت دیتے ہیں، فوری طور پر واپس لے لیے گئے ہیں۔

نوٹیفیکشن میں مزید بتایا گیا کہ پبلک سیکٹر اداروں کو ورکنگ بیلنس رکھنے کی دی گئی منظوری بھی واپس لے لی گئی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے گزشتہ ماہ بارہا کہا تھا کہ موجودہ مالی سال کا تخمینہ لگایا گیا 56 کھرب روپے کا بجٹ خسارہ بڑھ کر مالی سال کے اختتام تک 64 کھرب روپے ہوجائے گا جس کی وجہ بجلی اور ایندھن پر سبسڈی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'معیشت کیلئے مشکل دن آنے والے ہیں' وزارت خزانہ نے خبردار کیا

انہوں نے پی ٹی آئی حکومت پر سبسڈی کے لیے رقم مختص نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔

وزیر خزانہ کی سربراہی میں معاشی ٹیم دوحہ قطر میں آئی ایم ایف سے پروگرام کی بحالی پر مذاکرات کررہے ہیں کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے 28 فروری کو بڑے پیمانے پر سبسڈی دینے کے بعد گزشتہ ماہ یہ پروگرام معطل ہوگیا تھا۔

وزارت خزانہ نے حکم میں وضاحت کی کہ آئین کا آرٹیکل 78 بتاتا ہے کہ وفاقی حکومت کے لیے وصول کیے جانے والے تمام فنڈز کو یا تو فیڈرل کنسولیڈیٹ فنڈ (ایف سی ایف) یا وفاقی پبلک اکاؤنٹ (پی اے ایف) میں جمع کروانے ہوتے ہیں۔

مزید بتیا گیا کہ ایف سی ایف اور پی اے ایف دونوں کے کیش بیلنس کو مرکزی بینک میں اکاؤنٹ نمبر ایک میں رکھا جاتا ہے جبکہ آرٹیکل 79 کے تحت مرکزی اکاؤنٹ سے رقم وصولی یا ادائیگی کو پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے۔

وزیر خزانہ نے تمام متعلقہ اداروں کو یاد دہانی کروائی ہے کہ پارلیمان نے پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ (پی ایف ایم اے) 2019 میں نافذ کردیا تھا، ایف سی ایف اور پی اے ایف کے تمام معاملات اب اسی سے کنٹرول ہوتے ہیں۔

ایف سی ایف اور پی اے ایف کے آپریشن کی تمام ذمہ داری وفاقی حکومت کی نگرانی میں فنانس ڈویژن کے تحت ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق

ایکٹ کا سیکشن 23 (2) مزید کہتا ہے کہ کسی کے پاس بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ حکومتی رقم کو سرمایہ کاری یا حکومتی اکاؤنٹ سے بغیر وفاقی حکومت کی پیشگی اجازت کے کسی اور بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائے، اس میں اسائمنٹ اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔

نوٹیفیکشن کے مطابق ایکٹ کا سیکشن 45 اس ایکٹ سے متضاد کسی بھی قانون پر غلبہ فراہم کرتا ہے۔ جبکہ کیش منیجمنٹ اینڈ ٹریژری کے ضابطہ 4 (4) سنگل اکاؤنٹ رول 2020 کے مطابق کوئی بھی اتھارٹی پبلک فنڈ کو سیکشن 23 کے ذیلی ضابطے (2) کی خلاف ورزی کرکے منتقل نہیں کرسکتی۔

متعدد نوٹیفیکشنز کے مطابق پی ایس ای اور مقامی خودمختار اداروں کو فاضل رقم کو کسی بھی پبلک یا نجی بینک میں سرمایہ کاری یا آپریشن کے لیے متعدد شرائط کے ساتھ رکھنے کی اجازت تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں