اسلام آباد ہائیکورٹ: پولیس، انتظامیہ کو پی ٹی آئی کارکنان کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 24 مئ 2022
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر ہی عمل درآمد کریں گے —فائل فوٹو: ڈان نیوز
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر ہی عمل درآمد کریں گے —فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ یقینی بنائیں کہ غیر ضروری طور پر کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی لانگ مارچ کو روکنے کے خلاف رہنما عامر کیانی کی دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جلسوں اور دھرنوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات واضح ہیں اور یہ عدالت بھی اسی پر عمل کرے گی۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ پرامن احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے اور آئین پاکستان پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا لانگ مارچ کیلئے علمائے کرام کی مکمل حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب سے یہ درخواست دائر کی ہے اس کے بعد کل رات دیر گئے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر ہی عمل درآمد کریں گے، حکومت کی جانب سے کارکنان کو گرفتار کر کے مارچ میں شمولیت سے روکا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل کی بات پر عدالت نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی جلسوں اور دھرنوں کے حوالے سے فیصلے دیے ہیں، ہم بھی سپریم کورٹ کے پرنسپلز پر حکم جاری کرتے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت کو کارکنان کو گرفتار نہ کرنے اور مارچ سے نہ روکنے کا حکم دیا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی کے احتجاجوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2014میں حکومت سے اجازت لے کر دھرنا دیا گیا تھا مگر کارکنان وہاں سے گرفتار ہوئے تھے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل کو کہا کہ آپ ضلعی انتظامیہ سے جگہ کا تعین کریں، پھر دیکھا جاسکتا ہے، پرامن احتجاج آپ کا حق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

عدالت نے مزید کہا کہ حالات کا آپ کو بخوبی اندازہ ہے، یہ عدالت کسی واقعے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کو عمومی آرڈر چاہیے جو ہم ایسے نہیں دے سکتے، خدا نخواستہ اگر کوئی واقعہ ہوجائے تب کیا ہوگا، یہ عدالت کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتی۔

جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم پرامن احتجاج چاہتے ہیں اور پولیس نے گھروں میں گھس کر چھاپے مارے ہیں، ملک بھرمیں پی ٹی آئی خواتین کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار کر ہراساں کیا گیا ہے۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے سابق ججز کے گھروں پر بھی رات گئے چھاپے مارے گئے ہیں۔

عدالت نے پی ٹی آئی وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ کوئی بیان حلفی دے سکتے کہ کوئہ واقعہ نہیں ہوگا اور اگر کچھ ہوگیا تو پارٹی ذمہ دار ہوگی، جس طرح آپ بیان حلفی نہیں دے سکتے اسی طرح یہ عدالت بھی عمومی حکم نہیں دے سکتی۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2014 میں آزادی مارچ کے حوالے سے اس عدالت نے حکم دیا تھا، جس کے بعد پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور ایس ایس پی پر تشدد کیا گیا تھا۔

عدالت نے پی ٹی آئی وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت نہیں کہہ رہی کہ آپ کی سیاسی جماعت نے ایسا کیا مگر کیا اس واقعے سے انکار کیا جا سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جب عدالت ایک حکم جاری کرے اور اس کے بعد ایسا واقعہ ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

مزید پڑھیں: پشاور میں کور کمیٹی اجلاس میں مارچ کی تاریخ کا فیصلہ کریں گے، عمران خان

عدالت نے ماضی میں تحریک انصاف کے دھرنے میں پیدا ہونے والے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی رینک کے سینئر افسر کے ساتھ جو ہوا تھا اس میں ریاست کی رِٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بیرسٹر علی ظفر کو کہا کہ 2019 کے دھرنے والے کیس کا متعلقہ حصہ آپ پڑھ لیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے حوالے سے اس عدالت کے دائرہ کار سے گرفتاریوں کو روکا جائے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دے دی ہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے 25 مئی کو لانگ مارچ کے لیے ضلعی مجسٹریٹ کو درخواست دے دی ہے۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 27 مئی تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پرامن جلسے کی شرط کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کی اجازت دینے کے دعوے کے باوجود حکومت نے گزشتہ رات گئے پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں کریک ڈاؤن کیا تھا۔

لاہور میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے گھر پر رات گئے پولیس کی کارروائی کی اطلاعات ملیں جب کہ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کی رہائش گاہ لال حویلی سمیت فیاض الحسن چوہان اور اعجاز خان ججی کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے۔

علاوہ ازیں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ان کے گھر کی نگرانی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر جہلم روانہ ہوگئے ہیں۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ روز شام کو وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی زیرصدارت وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں پی ٹی آئی کے احتجاجی پلان کو کنٹرول کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا اور وزیراعلیٰ نے پولیس کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔

پشاور میں پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی کور کمیٹی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی تاریخ کا فیصلہ کرلیا ہے، 25 مئی کو دن 3 بجے اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے پر ملوں گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں