بیرونِ ملک سے آنے والے مسافروں کی چیزیں ضبط کرنے پر کسٹم حکام کو تنقید کا سامنا

اپ ڈیٹ 25 مئ 2022
خط میں لکھا گیا کہ ہوائی اڈے پر چیکنگ کے مرحلے سے گزرنے والے سامان میں 76 کلو کھانے کی اشیاء، 127 کلو پھل سمیت دیگر اشیا شامل ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
خط میں لکھا گیا کہ ہوائی اڈے پر چیکنگ کے مرحلے سے گزرنے والے سامان میں 76 کلو کھانے کی اشیاء، 127 کلو پھل سمیت دیگر اشیا شامل ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنےاور بڑھتے ہوئے درآمدی بل پر قابو پانے کے لیے ’پُرتعیش مصنوعات‘ کی درآمد پر پابندی لگانے کے حکومتی اقدام نے مختلف ممالک سے پاکستان آنے والوں، خاص طور پر کراچی ایئرپورٹ پر اترنے والے مسافروں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی شدید تناؤ میں مبتلا ہیں کیونکہ کسٹم حکام نے ان کے سامان جس میں ذاتی اشیا مثلاً چاکلیٹ، جوتوں کے جوڑے اور زیر استعمال موبائل فون شامل ہیں، ان پر بھی نئی پابندی کا نفاذ شروع کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ’ہنگامی معاشی منصوبہ‘، لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی

کسٹم حکام کی جانب سے جناح انٹرنیشل ایئرپورٹ پر ضبط کیے گیے سامان کی تفصیلات نہ صرف میڈیا پر آئیں بلکہ حکام نے اس کارروائی کو اپنی کامیابی کے طور پر مناتے ہوئے فیڈرل ریونیو بورڈ (کسٹم) کے رکن کو بھی اس بارے میں خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کسٹم حکام کی جانب سے لکھے گئے خط میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ کس طرح کراچی ایئرپورٹ پر حکام نے ’خطرناک مقامات‘ سے آنے والے مسافروں کو اسکین کیا اور ان کے سامان میں موجود وہ اشیا ضبط کر لی گئیں جن پر حکومت نے حال ہی میں پابندی عائد کی ہے۔

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کلکٹریٹ آف کسٹمز کے خط میں لکھا گیا ہے کہ بین الاقوامی آمد کے ٹرمینل پر 24 گھنٹے چیکنگ اور ہوشیار رہنے کے سبب مختلف اشیا کو ضبط کیا گیا ہے جو مسافروں کے سامان کی آڑ میں لائی گئی تھیں جو کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کی نفی ہے۔

فیڈرل ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو لکھے گئے خط میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کلکٹریٹ آف کسٹمز کی جانب سے مسافروں اور پروازوں کی تعداد ظاہر کیے بغیر ’خطرناک مقامات‘ سے آنے والے مسافروں کے پورے سامان کو اسکین کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائی کا ذکر کیا گیا ہے۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہوائی اڈے پر چیکنگ کے مرحلے سے گزرنے والے سامان میں سے 76 کلو گرام کھانے کی اشیا، 127 کلوگرام پھل، 42 کلوگرام سینیٹری ویئر، 213 موبائل فونز اور برانڈڈ جوتوں کے 96 جوڑے برآمد کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا 80 سے زائد مصنوعات کی درآمدات پر پابندی کا فیصلہ

پاکستانی کسٹم حکام کو اس عمل کے نتیجے میں مسافروں کے سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا خاص طور پر ان مسافروں کی طرف سے جن کا سامان حکومتی قوانین کے نام پر اسکین کیا جارہا تھا، بعد ازاں ان مسافروں نے کسٹم حکام کے اس عمل کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

بیرون ملک سے آنے والے ایک مسافر نے کسٹم حکام کی کارروائی سے متاثر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک رسید سوشل میڈیا پر جاری کی جو ان کو اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے لیے لائے گئے 5 کلو چاکلیٹس کو ضبط کرنے کے بعد جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ماڈل کسٹم کلکٹریٹ کی جانب سے دی گئی تھی۔

ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ دو برسوں سے زائد عرصے سے ان کے زیر استعمال موبائل کو بھی کسٹم حکام نے نئے قوانین کے نام پر ضبط کر لیا ہے۔

پاکستان کسٹمز کے اقدام اور عام آدمی کے لیے پریشانی پیدا کرنے کی منطق پر تنقید کرنے کے علاوہ لوگوں نے مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت کے اس طرح کے مضحکہ خیز اقدامات کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا۔

وکیل اور کالم نگار عبدالمعیز جعفری نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مسافر کا سامان تحویل میں لینے کے بعد پاکستان کسٹمز کی جانب سے دی گئی رسید کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کسٹمز فورس اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بیرون ملک جانے اور آنے والے پاکستانیوں سے ایک بھی ووٹ حاصل نہ ہو۔

حکومت کی وضاحت

بیرون ممالک سے آنے والے مسافروں کے احتجاج اور سوشل میڈیا پر شدید ردعمل نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو اپنا مؤقف دینے پر مجبور کردیا۔

مزید پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق

وفاقی وزیر خزانہ نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ’چونکہ حکومت نے چند غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کردی ہے، ہمیں خدشہ ہے کہ ان اشیا کی اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا، لہٰذا ہم نے پیشہ ور اسمگلروں کے خلاف کارروائی میں اضافہ کیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ کسٹمز اہلکار جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں، چند اشیا لانے والے عام شہریوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

جانے مانے اسمگلرز

وزیر خزانہ کی اس وضاحت پر کہ اسمگلرز کو اہلکار جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں، قانونی ماہرین نے تمام مسافروں کو اسکین کرنے کے اقدام پر سوال اٹھائے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے پُرتعیش مصنوعات کی درآمد پر پابندی کو بڑے پیمانے پر لاگو کیا جانا چاہیے اور یہ پاکستان کسٹمز کے اس اقدام سے مطابقت نہیں رکھتا کہ بیرون ملک میں پیسہ خرچ کرکے اپنے ملک واپس آنے والے عام شہریوں کو پاکستان میں ہوائی اڈوں پر ان کے سامان کو اسکین کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے غیر اہدافی سبسڈی، ایمنسٹی اسکیم پر سوالات اٹھادیے

شہاب امام نے کہا کہ مسافروں کے ساتھ یہ سب کرنے والے پاکستان کسٹمز کے اہلکاروں کو معطل کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ پابندی پاکستان میں امریکی ڈالر کی اڑان کو قابو میں لانے کے لیے لگائی گئی تھی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان سے باہر ڈالر یا کوئی غیر ملکی کرنسی خرچ کرنے والے مسافر کو کیسے چیک کیا جا سکتا ہے، یہ عمل بہت مضحکہ خیز ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری بات یہ کہ اسمگلرز ہمیشہ پاکستان کسٹمز کی ملی بھگت سے کام کرتے ہیں، وہ اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتے، یہ اقدام بالکل غیر قانونی ہے اور پاکستان کسٹمز کی جانب سے اس غیر قانونی اقدام کے لیے جو بہانہ تلاش کیا گیا ہے وہ انتہائی غیر اہم ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ملک میں مہنگائی کی وجہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے کیے گئے معاہدے کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا تھا کہ حکومت نے ہنگامی صورت حال میں معاشی منصوبے کے تحت لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔

مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے اندر اس وقت عوامی حکومت ہے جس میں وفاق کی تمام اکائیاں اور تمام صوبوں کی نمائندگی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں