نیب اور انتخابات قوانین میں ترامیم کو عدالتوں میں چیلنج کریں گے، شاہ محمود قریشی

اپ ڈیٹ 30 مئ 2022
نیب قوانین میں ترامیم کرکے موجودہ حکمران جماعتوں نے خود کو فائدہ دیا ہے، سابق وزیر خارجہ۔ —فوٹو: اے ایف پی
نیب قوانین میں ترامیم کرکے موجودہ حکمران جماعتوں نے خود کو فائدہ دیا ہے، سابق وزیر خارجہ۔ —فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور انتخابات سے متعلق قومی اسمبلی میں کی گئی ترامیم کو عدالت میں چلینج کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے کشمیر ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں کے ’غیر فطری‘ اتحاد‘ کا ایک ہی مشترکہ مقصد ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان پر دباؤ ڈالا جائے جو اس سماج کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام حکمران جماعتوں نے نیب قوانین میں ترامیم کرکے خود کو ’این آر او 2‘ دیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی رہائش گاہ پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے لیے قانون سازی کر رہے تھے تو میں پی ٹی آئی ٹیم کی سربراہی کر رہا تھا، اس وقت وہاں پاکستان مسلم لیگ ن رہنما شاہد خاقان عباسی، فاروق نائیک، اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن بھی موجود تھی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا نیب قانون میں ترامیم کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اس وقت شیری رحمٰن، شاہد خاقان عباسی اور فاروق نائیک نے ایک دستاویز پیش کیا جس میں نیب قوانین میں 30 ترامیم تجویز کی گئی تھیں اور انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف نیب قوانین میں ترامیم کرتی ہے تو مخالف جماعتیں ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی پر حمایت کریں گی۔

سابق وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ اب قومی اسمبلی میں نیب قوانین سے متعلق جو ترامیم کی گئی ہیں یہ وہی تجاویز ہیں جو مجھے دی گئی تھیں، اس قانون سازی کا فائدہ امیر طبقے کو ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اب اس قوانین کے بعد بڑے اور طاقتور لوگ کرپشن کرکے محفوظ رہیں گے، اقوام متحدہ نے ایک معیار مقرر کیا ہے اور ترامیم ان معیارات کے مطابق نہیں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ ترامیم بھی ایف اے ٹی ایف کے مطابق نہیں ہیں، میں سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قوانین میں ترامیم کی وجہ سے وفاقی حکومت کا ذیلی محکمہ ہونے کے بجائے نیب غیر فعال ہوچکا ہے، مخالف جماعتوں نے نیب قوانین میں ایسی ترامیم کرکے اس کو پنجاب کا محکمہ اینٹی کرپشن یا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس قانون سازی کے بعد تمام زیر سماعت مقدمات متاثر ہوں گے اور 80 فیصد مقدمات نیب عدالتوں سے نکال کر دیگر عدالتوں میں منتقل کیے جائیں گے، اسی طرح سیکشن 9 جیسے بینک ٹرانزیکشنز سے متعلق سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے، اور سب سیکشن اے 5 کا براہ راست فائدہ شہباز شریف کو ہوگا۔

یہ بھی پڑھین: میں یہاں الیکشن جیتنے نہیں، لوگوں کو جگانے آیا ہوں، شاہ محمود قریشی

انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 14 میں ترمیم کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا، کیونکہ منی ٹریل کی ذمہ داری ملزمان پر سے ختم کی جائے گی اور انہوں نے بے نامی اکاؤنٹس کی تعریف ہی بدل دی ہے، اب بیرون ملک سے حاصل کی گئی معلومات نیب مقدمات کے لیے موثر نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ریگولیٹری آرڈر کی غیر قانونی فراہمی پر انکوائری کا بندوبست تھا لیکن اسے ختم کر دیا گیا ہے، نیب چیئرمین کو یہ اختیارات تھے کہ وہ کرپشن میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرے مگر اس قانون سازی کے بعد نیب چیئرمین عملی طور پر بے اختیار بن گیا ہے جس کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ ہوگا۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا اعلیٰ سطح کے مقدمات کو فائدہ پہنچانے کے لیے صدر کے اختیارات واپس لیے گئے ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان ترامیم کو عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور ہم نے اپنی قانونی ٹیم کو اس پر عمل کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے سمندر پار پاکستانیوں کو جو ووٹ دینے کا حق دیا تھا وہ اس غیر ذمہ دار حکومت نے واپس لے لیا ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اس لیے فراہم کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے گزشتہ سال 32 ارب امریکی ڈالر ملک میں بھیجے تھے اور ان میں سے بہت سے ٹیکنوکریٹس تھے جو پالیسی سازی میں اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستان سے باہر رہنے والی نئی نسل کی اپنے ملک میں دلچسپی پیدا کی جائے جو کہ واپس نہیں آنا چاہتے، ہم نے ووٹ کے حق کے ذریعے ان کی پاکستان سے جذباتی وابستگی قائم کرنا چاہی۔

سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے وہ تمام سہولیات ختم کردی ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ سمندر پار پاکستانی عمران خان کے حق میں ہیں۔ لہٰذا ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایسی قانون سازی کو عدالت میں چلینج کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے استعمال سے متعلق قانون سازی میں اس حقیقت کے باوجود ترمیم کی گئی ہے کہ ای وی ایم زیادہ تر شکایات کا ازالہ کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا سے سودے بازی پر مبنی نہیں، کثیر الجہتی تعلقات چاہتے ہیں، شاہ محمود قریشی

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو ڈسکہ ضمنی الیکشن کے حوالے سے شکایات تھیں اور ای وی ایم ایسی شکایات کا بہترین حل ہے مگر ایسا کہا گیا کہ لوگ جاہل ہیں وہ ای وی ایم مشینوں کا استعمال نہیں کر سکتے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ بھارت میں وہی مشینیں کامیابی سے استعمال کی جا رہی ہیں حالانکہ وہاں پاکستان کے مقابلے میں ناخواندہ لوگ زیادہ ہیں تو ان مشینوں کو یہاں استعمال کیوں نہیں کیا جا سکتا۔

سابق وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ملک میں ایسے عناصر ہیں جو اپنی پسند کے نتائج چاہتے ہیں مگر تحریک انصاف ان کو روکنا چاہتی ہے، انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے 2018 میں قومی اسمبلی کا الیکشن 36 ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتا تھا اور رات 10 بجے نتیجہ کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن صوبائی اسمبلی کی نشست پر جو اسی حلقے میں تھی اس پر صبح 4 بجے نتیجہ کا اعلان ہوا اور میں 3600 ووٹوں کے فرق سے ہار گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی چاہیں گے کہ وہ وزیراعظم بنیں، پی ٹی آئی رکن اسمبلی

تحریک انصاف کے حالیہ لانگ مارچ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے لانگ مارچ پر آنسو گیس چلائی گئی، کنٹینرز سے سڑکیں بند کر دی گئیں، یہاں تک کہ وکلا کو احتجاج کے دوران زدوکوب کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ کچھ ’دوسری قوتیں‘ یہ چاہتی تھیں کیونکہ پولیس وکلاء کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وکلا کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور ان کی سیاسی وابستگی تبدیل کرنے کے لیے وکلا کی بارز کو 20 کروڑ روپے جاری کیے گئے تھے۔

دوسری جانب سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے منحرک اراکین کو نااہل قرار دینے کے بعد حمزہ شہباز بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں رہ سکتے۔

انہوں نے آئینی اداروں پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے بڑے صوبے کے حالات کے بارے میں سوچیں جہاں قانین کی سرعام خلاف ورزی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لیے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر دوبارہ انتخابات ہونے چاہییں۔

تبصرے (0) بند ہیں