دعا زہرہ کیس: عدالت کا آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم

اپ ڈیٹ 30 مئ 2022
عدالت نے نمرہ کاظمی کو میڈیکل ٹیسٹ ہونے تک شیلٹر ہاؤس بھیج دیا — فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے نمرہ کاظمی کو میڈیکل ٹیسٹ ہونے تک شیلٹر ہاؤس بھیج دیا — فوٹو: ڈان نیوز

کراچی سے لاپتا ہوکر صوبے سے باہر پہنچنے والی نمرہ کاظمی اور دعا زہرہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوسرا افسر تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینج نے دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی، آئی جی سندھ کامران فضل اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کے اہلخانہ بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ نمرہ کاظمی اور اس کے شوہر کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے نمرہ کاظمی کا کیس سنیں گے۔

عدالت نے نمرہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ پڑھتی ہیں جس پر نمرہ نے عدالت کو بتایا کہ میں دسویں کلاس میں ہوں۔

مزید پڑھیں: ’کراچی سے لاپتا دعا زہرہ کو اوکاڑہ سے تلاش کرلیا گیا‘

جسٹس اقبال کلہوڑو نے نمرہ سے کہا کہ آپ کی عمر پھر 18 سال سے تو کم ہوگی، جس پر نمرہ نے کہا کہ پڑھائی کی وجہ سے میری عمر کم لکھوائی گئی ہے، میرا ٹیسٹ کروایا جائے۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سندھ میں قانون ہے کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی شادی نہیں کرسکتی، کیا لڑکی کی عمر کے حوالے سے کوئی دستاویزات موجود ہیں؟

نمرہ سے مکالمہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہم آپ کا ٹیسٹ کرائیں گے اس لیے شیلٹر ہاؤس بھیج رہے ہیں، اگر آپ کی عمر 18 سال ہوئی تو شوہر کے ساتھ جانے دیں گے۔

عدالت نے نمرہ کاظمی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے لیے انہیں شیلٹر ہوم بھیج دیا۔

دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دعا زہرہ خیبر پختونخوا کے علاقے ہزارہ یا مانسہرہ میں ہیں، ہم نے چھاپے مارے لیکن دس پندرہ منٹ پہلے انہیں اطلاع مل گئی۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کے طبی معائنے کیلئے دائر پولیس کی درخواست مسترد

عدالت نے ریمارکس دیے کہ لڑکے کے والد مالی ہیں، اب کہہ رہے ہیں ڈی آئی جی ان کی مدد کر رہا ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ڈی آئی جی مدد کر رہا ہے، پولیس والے اور کچھ وکلا ان کی مدد کر رہے ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا ہم ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو حکم دے سکتے ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وہاں کے افسران آئی جی سندھ کے ساتھ رابطے میں ہیں، کہتے ہیں آج دے دیں گے کل دے دیں گے۔

اس موقع پر جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ہمیں پولیس بھی یہاں آکر یہی بتا رہی ہے، یہ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے ایک بچی لاپتا ہے۔

جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آپ کا کام وہاں کے ڈی آئی جی وغیرہ کریں، پچھلی سماعت پر تو خیبر پختونخوا پہنچا دیا تھا، آج ہزارہ میں ہے بتا رہے ہیں، کل کو کہیں گے افغانستان سے سگنل آرہے ہیں تو ہم کیا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا صوبے کی پولیس اتنی نااہل ہوچکی ہے، عدالت 21 دن سے احکامات جاری کر رہی ہے، پولیس بچی کو بازیاب نہیں کروائے گی تو کون بچی کو بازیاب کروائے گا۔

اس موقع پر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ہماری 4 ٹیمیں اس وقت ہزارہ میں ہیں جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ پولیس سے بچی کو بازیاب نہیں کرایا جارہا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ہم نے گڑھی حبیب اللہ کے علاقے میں چھاپہ مارا تھا لیکن ایک گھنٹے پہلے وہ وہاں سے کہیں اور چلے گئے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ وسیم نامی وکیل لڑکے والوں کی مدد کر رہا ہے جس پر جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیے کہ جتنی کوشش عدالت کو مطمئن کرنے میں لگ رہی ہے ایک فیصد بھی بچی کی بازیابی کے لیے لگاتے تو بچی مل چکی ہوتی، جس کو بھی گرفتار کرنا ہے وہ اب ہائی کورٹ بتائے گی کہ کس کو حکم دیں اور وہ بازیاب کرائے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بچی ہمارے صوبے میں ہوتی تو دو، تین دن میں پیش کر دیتے۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کی لاہور سے ’ملنے‘ کی خبر پر لوگوں کے تبصرے

جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آخری موقع دیا تھا لیکن بچی بازیاب نہیں ہوئی ہے، ہم آئی جی سندھ کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے، اگر بچی کو جمعہ تک پیش کردیا تو شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔

جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ، آپ کو افسران کی فکر ہوگی ہمیں عوام کی فکر ہے۔

جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ اگر بچی افغانستان بھی گئی ہوئی ہوتی تو ہم آپ کو کہتے کہ بازیاب کرائیں، جمعہ تک سماعت ملتوی کر رہے ہیں، بچی کو بازیاب کرا لیں گے تو آئی جی سندھ کو جاری شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ کامران افضل کا کہنا تھا کہ ایک بچی نمرہ کاظمی کو بازیاب کروا لیا ہے، دوسری بچی کو بازیاب کرانے کے لیے وقت دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی کوششیں مزید بڑھائیں گے، تحقیقات کے معاملات نہ پوچھیں، متعدد صوبوں میں چھاپے مارے ہیں۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے والد کی درخواست پر فریقین کو نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ پریشر اور نو پریشر ہماری ڈیوٹی ہے، ہمارا جو کام ہے وہ کریں گے۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں عدالت نے آئی جی سندھ کامران افضل سے چارج لینے کا حکم دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت جاری کی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ ایم آئی ٹی سندھ ہائی کورٹ، عدالتی احکامات نئے تعینات ہونے والے افسر کو پہنچائے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اپنی رائے دے کہ کامران افضل اس عہدے کے اہل ہیں یا نہیں؟

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو انتظامیہ پر چھوڑ دیں، آئی جی سندھ نے غیر حقیقی رپورٹ پیش کی جو مسترد کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں