سینیٹ میں بحث، اسرائیل کا دورہ کرنے والوں کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 30 مئ 2022
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزارت خارجہ سے تصدیق کر کے ایوان کو آگاہ کروں گا — فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزارت خارجہ سے تصدیق کر کے ایوان کو آگاہ کروں گا — فائل فوٹو: اے پی پی

ایوان بالا (سینیٹ) میں پاکستانی شہریوں کے دورہ اسرائیل پر بحث کے دوران دورہ کرنے والے پاکستانیوں کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

پاکستانیوں کے دورہ اسرائیل کے معاملے پر پیر کو سینیٹ میں بھی گفتگو کی گئی اور حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اس پر اظہار خیال کیا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کا دورہ کرنے والے پی ٹی وی اینکر کو برطرف کردیا گیا ہے، مریم اورنگزیب

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اخباری خبر پر کوئی بات نہیں کر سکتے اور میں وزارت خارجہ سے تصدیق کر کے ایوان کو آگاہ کروں گا۔

ایوان بالا میں قائد خزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ آپ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا دورہ نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت امریکا اور اسرائیل کی خوشنودی میں لگی ہوئی ہے اور پی ٹی وی کا ایک ملازم احمد قریشی بھی اسرائیل گیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے نقطہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کے دورے پر جانے والوں کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جو پاکستانی اسرائیل کے دورے پر گئے اس پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے اور پاک فوج کے پراجیکٹ پر کام کرنے والے احمد قریشی بھی اسرائیل گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’یہ بہترین تبدیلی ہے‘، اسرائیلی صدر کی پاکستانی وفد سے ملاقات کی تصدیق

سینیٹر مشتاق احمد نے مطالبہ کیا کہ جو بھی پاکستانی اسرائیل گئے ان کی شہریت ختم کی جائے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے وفد سے ملاقات کی تصدیق کی تھی اور اسے ’حیرت انگیز تجربہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات میں ’بڑی تبدیلی‘ کی ایک مثال ہے۔

آئزک ہرزوگ نے یہ بات 26 مئی کو سوئٹرزلینڈ میں عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کے ڈیووس میں جاری اجلاس کے دوران خصوصی خطاب کے دوران کی۔

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے اسرائیلی صدر کے تبصرے کو ’امپورٹڈ حکومت اور دیگر ساتھی سازشیوں کی طرف سے حکومت کی تبدیلی کی سازش کے تحت امریکا سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کرنے کے مترادف قرار دیا‘۔

انہوں نے ٹوئٹ میں اسے ’شرمناک تابعداری‘ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی جارحیت کے خلاف حمایت پر فلسطینی سفیر کا پاکستان سے اظہارِ تشکر

تاہم دفتر خارجہ نے وضاحت جاری کرتے ہوئے ان رپورٹس کو یکسر مسترد کیا تھا کہ پاکستان سے کسی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جس دورے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اس کا اہتمام ایک غیر ملکی این جی او نے کیا تھا جو پاکستان میں قائم نہیں ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کا مؤقف بالکل واضح اور غیر مبہم ہے، ہماری پالیسی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی جس پر مکمل قومی اتفاق ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال کا بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے کسی سرکاری یا نیم سرکاری وفد نے اسرائیلی صدر سے ملاقات نہیں کی۔

ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ اس وفد کے شرکا پاکستانی نژاد امریکی شہری تھے جو اپنی وضاحت کر چکے ہیں۔

آرٹیکل 9 اور 10 میں ترمیم کا بل پیش

دوسری جانب سینیٹر مشتاق احمد نے آئین کے آرٹیکل 9 اور 10 میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا۔

آرٹیکل 9 میں ترمیم کے حوالے سے بل میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو متعلقہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر کسی غیر ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 10 میں لاپتا افراد کے حوالے سے ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی بھی نظر بند شخص کو ایک ماہ سے زائد تحویل میں نہیں رکھا جائے گا اور نظر بند شخص کو ایک ہفتے کے اندر تحویل میں لینے کی وجوہات بتائی جائیں۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ زیر تحویل شخص کا ایک ہفتے کے اندر خاندان کے ساتھ رابطہ کرایا جائے اور اس کی مرضی کا قانونی ماہر مہیا کیا جائے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس ججوں پر مشتمل نظرثانی بورڈ قائم کیا جائے اور آئین کی خلاف ورزی کرکے غیر قانونی احکامات جاری کرنے والے افراد پر غیر قانونی اغوا اور غیر قانونی نظر بندی کے لیے مقدمہ دائر کیا جائے گا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے ترمیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شخص کو لاپتا کرنے کو جرم قرار دینے کے لیے ترمیم لایا ہوں، آمر پرویز مشرف نے عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا، ان کی حرست کو 7 ہزار دن ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ریاستی دہشت گردی ہے، یہ ترمیم وقت کی ضرورت ہے، بل حکومت کو لانا چاہیے تھا۔

بل کو کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں