سندھ اور پنجاب نے پانی بہاؤ کے معاملے پر پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا

اپ ڈیٹ 02 جون 2022
پانی کی پیمائش کی حتمی وضاحت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل میں فراہم کی جائے گی —فائل فوٹو: ڈان نیوز
پانی کی پیمائش کی حتمی وضاحت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل میں فراہم کی جائے گی —فائل فوٹو: ڈان نیوز

ملک بھر میں پانی کی سنگین قلت کے دوران ملک کے دو بڑے صوبوں سندھ اور پنجاب نے اپنے بیراجوں میں دریائے سندھ کے پانی کے بہاؤ کے معاملے پر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں صوبوں میں ایسی صورتحال واپڈا کے انٹرنیشنل سیڈیمنٹیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس آر آئی پی) کی طرف سے گدو اور تونسہ بیراجوں میں پانی کے بہاؤ کی حالیہ پیمائش کے بعد پیدا ہوئی ہے۔

سندھ کے حکام نے پنجاب میں اپنے ہم منصبوں سے پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ آئی ایس آر آئی پی کی جانب سے پانی کی آزادانہ پیمائش پر راضی نہیں ہو رہے جو سندھ کے اعداد و شمار کی توثیق کرتا ہے، جبکہ پنجاب کے حکام نے آئی ایس آر آئی پی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ سندھ نے گدو بیراج پر پانی کی پیمائش کے لیے جس مقام کا انتخاب کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: آبپاشی کیلئے پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی، اِرسا نے صوبوں کو خبردار کردیا

تاہم پانی کی پیمائش کی حتمی وضاحت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل میں فراہم کی جائے گی جس کا اجلاس 3 جولائی کو ہونے کا امکان ہے جس میں نہ صرف پانی کے اعداد و شمار میں تفاوت بلکہ کمیٹی کے سامنے حتمی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے پیمائش کی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے معائنے کے دوران گدو اور تونسہ بیراجوں میں پانی کے بہاؤ کی پیمائش پر سندھ حکومت متفق ہے۔

سندھ کے آبپاشی حکام، جو مئی کے تیسرے ہفتے میں پانی کی پیمائش کے دوران مشق کا حصہ تھے، کے مطابق واپڈا کے آئی ایس آر آئی پی کی پیمائش نے تونسہ کے نیچے پانی کے کم بہاؤ سے متعلق سندھ کے دعوے کی تصدیق کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ گدو کے اپ اسٹریم بہاؤ میں عددی غلطی کے باوجود بھی اوپر کی طرف سے پانی کے بہاؤ کی پیمائش سندھ کی تونسہ اور گدو کے درمیان بہاؤ کی عدم موجودگی کے دعوے کی تائید کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گدو اپ اسٹریم پر سندھ کی طرف سے 15 مئی کو پانی کا بہاؤ 45 ہزار 748 کیوسک رپورٹ ہوا تھا جبکہ اس کے برعکس آئی ایس آر آئی پی کی جانب سے 36 ہزار 567 کیوسک پانی رکارڈ کیا گیا تھا جس کا آئی ایس آر آئی پی کی ٹیم کی پیمائش پر کوئی اثر نہیں ہوا جو واپڈا کی ذیلی کمپنی ہے اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی طرف سے اس کام میں مصروف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں پانی کے بہاؤ کے معائنے پر قومی اسمبلی کی کمیٹی سے پنجاب ناخوش

ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ہم وہاں آنے والی ٹیم کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے موجود تھے، کمیٹی کے ارکان نے 14 اور 15 مئی کو سکھر اور گدو بیراجوں کا دورہ کیا تھا، آئی ایس آر آئی پی کی ٹیم نے پانی کے بہاؤ کی پیمائش مہر علی شاہ کے اصرار کے مطابق کی تھی۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ دونوں صوبوں کے حکام میں عدم اعتماد کی وجہ سے نہ تو سندھ اور نہ ہی پنجاب کے حکام کو بہاؤ کی پیمائش کرنے کی ضرورت تھی لیکن دونوں صوبوں نے بھی اپنے ریکارڈ کے لیے معائنہ کیا تھا۔

پنجاب کا یہ دعویٰ کہ گدو بیراج کے (صحرائی) پیٹ فیڈر اور گھوٹکی فیڈر پر بہاؤ کی پیمائش کے لیے ان کے نمائندے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا یہ دعویٰ اس حقیقت کی وجہ سے غلط تھا کہ گدو بیراج اور ان دو آف ٹیکنگ نہروں میں پانی کی پیمائش آئی ایس آر آئی پی ٹیم نے کی تھی۔

سندھ کے محکمہ آبپاشی کے عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ گدو بیراج پر کی گئی پیمائش کی شیٹ ہمارے پاس موجود ہیں۔

تاہم پنجاب محکمہ آبپاشی کے عہدیدار نے کہا کہ جب پنجاب کے نمائندوں نے نشاندہی کی کہ 300 فٹ نیچے کی گدو سائٹ سیدھی نہیں ہے تو اس کے بعد سندھ کے محکمہ آبپاشی کے عہدیداروں نے بڈانی سائٹ تجویز کی تھی، سندھ کے عہدیدار نے بڈانی جانے کا مشورہ دیا جہاں دریا کا بہاؤ ہموار اور سیدھا تھا ورنہ ہمیں اس بات کا علم نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے نمائندے کو کچے کے علاقے میں اس وقت کشتی سے اتارا گیا جب اس نے اے ڈی سی پی پر موونگ بیڈ کریکشن لگانے کا مطالبہ کیا اور اس واقعے کی کمیٹی کو کی فوری طور پر اطلاع دی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کام میں کوئی تجویز دینے یا کوئی اعتراض اٹھانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور یہ آسانی اس وقت پیدا ہوئی جب دریا کے بہاؤ کی نگرانی کا کام دو گھنٹے کی مشترکہ بحث کے بعد سکھر سے گدو بیراج منتقل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب سندھ کے عہدیدار نے کہا کہ صوبے میں پانی کی پیمائش کے مقامات کا انتخاب پنجاب کے نمائندوں نے کیا تھا اور اسی طرح کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں سندھ کے نمائندوں نے پانی کی پیمائش کے لیے مقامات کا انتخاب کیا تھا۔

انہوں نے پنجاب کے نمائندے کو کشتی سے اتارنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک گدو کے 20 کلومیٹر نیچے بڈانی میں پیمائش کا تعلق ہے، یہ پنجاب کے نمائندے نے خود کیا تھا اس لیے انہیں کشتی سے اتارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ درحقیقت پنجاب کے نمائندے نے سندھ کا اے ڈی سی پی (اکوسٹک ڈویپلر کرنٹ پروفائلر) لیا تھا اور اس کے پیمائشی کانٹوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں پانی کی سنگین قلت کے باوجود پنجاب میں دو متنازع نہریں کھول دی گئیں

رکن قومی اسمبلی خالد مگسی کے مطابق پیمائش کی مشق کے دوران معمولی نوعیت کے معاملات سامنے آئے تھے جن پر کمیٹی کے 25 مئی کے اجلاس میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان مسائل پر قائم رہے تو ہم دو صوبوں کے درمیان پانی کے معاملے کو حل کرنے میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں