قصور جیل کے سابق سربراہ، دیگر اہلکار سرکاری زمین کی مٹی کی چوری میں ملوث

15 جون 2022
جیل حکام نے سرکاری اراضی سے ایک ہزار سے زائد مٹی کی ٹرالیاں مقامی مافیا کو فروخت کیں  — فوٹو: ڈان
جیل حکام نے سرکاری اراضی سے ایک ہزار سے زائد مٹی کی ٹرالیاں مقامی مافیا کو فروخت کیں — فوٹو: ڈان

پنجاب کے ضلع قصور کے جیل حکام نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کے عِوض سرکاری اراضی سے اعلیٰ معیار کی مٹی مقامی مافیا کو فروخت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ابتدائی انکوائری میں ان الزامات کی تصدیق ہوئی کہ قصور جیل کے عہدیداروں نے جیل کی سرکاری اراضی میں بڑے پیمانے پر کھدائی کے بعد مٹی کے ہزار سے زائد ٹرک فروخت کیے ہیں۔

اس پیشرفت سے متعلق ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ انکوائری رپورٹ میں حال ہی میں تبادلہ ہو کر آنے والے جیل سپرنٹنڈنٹ اور دیگر اہلکاروں کو مٹی فروخت کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سرکاری عہدیداروں سمیت 7 افراد کو سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر 10 سال قید

انہوں نے کہا کہ انکوائری رپورٹ میں ملوث اہلکاروں کو سرکاری ملکیت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے پر سخت سزا کی تجویز دی گئی ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ انسپکٹر جنرل پولیس جیل خانہ جات پنجاب نے غیر قانونی کھدائی اور چوری کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے لیے معاملہ محکمہ داخلہ کو بھیج دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ داخلہ کو اس معاملے میں شامل کرنے کا مقصد یہ کہ دیگر سینئر اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تصدیق کے لیے بڑے پیمانے پر تفتیش ہو سکے۔

آئی جی جیل خانہ جات نے اس معاملے کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو بھیجنے کی بھی سفارش کی ہے تاکہ ملوث اہلکاروں کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کی جاسکے۔

—فوٹو: ڈان
—فوٹو: ڈان

انہوں نے کہا کہ آئی جی جیل خانہ جات کی ہدایت پر کی گئی ابتدائی تحقیقات میں قصور کے سابق سپرنٹنڈنٹ جیل غلام سرور سمرا اور کچھ دیگر اہلکاروں کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

پولیس عہدیدار نے بتایا کہ مرکزی ملزم غلام سرور سمرا قصور سپرنٹنڈنٹ جیل کے طور پر دو برس سے زائد عرصے تک خدمات انجام دے چکے ہیں اور ان کا حال ہی میں جیل سے آئی جی جیل خانہ جات کے دفتر تبادلہ کیا گیا تھا۔

1929 میں قائم ہونے والی قصور ڈسٹرکٹ جیل، جیل کالونی کے علاوہ 32 ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی ہے جس کا رقبہ ایکڑ سے زیادہ ہے اور آٹھ ایکڑ پر زرعی اراضی ہے۔

جیل میں 444 قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن جیل میں 1506 قیدی موجود ہیں۔

پولیس عہدیدار نے بتایا کہ انکوائری رپورٹ آئی جی جیل خانہ جات کو منگل کو بلائے گئی ایک ہنگامی اجلاس کے دوران پیش کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے کو دنیا کے آخری کونے تک نہیں چھوڑیں گے’

پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ نے ڈان کو قصور ڈسٹرکٹ جیل میں واقعے کے منظر عام پر آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ محکمے نے فوری کارروائی کی ہے اور ایسے عناصر کو چھوٹ نہیں دی جائے گی۔

انہو نے کہا کہ ہم نے محکمہ کی بنیاد پر معاملے کی انکوائری کی ہے اور رپورٹ میں سابق سپرنٹنڈنٹ جیل اور کچھ دیگر اہلکاروں کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور محکمہ داخلہ کو بھی بھیج دیا گیا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ انکوائری رپورٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ افسران نے قصور ڈسٹرکٹ جیل کی زمین میں بڑے پیمانے پر کھدائی کے دوران مٹی کی ایک ہزار 64 ٹرالیاں مقامی مافیا کو فروخت کیں۔

مرزا شاہد سلیم بیگ نے کہا کہ جیل کے احاطے میں کئی ہفتوں تک گہری کھدائی کی گئی اور کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں محکمہ ٹریفک پولیس میں 7 کروڑ 74 لاکھ روپے کے غبن کا انکشاف

آئی جی نے کہا کہ بظاہر قصور جیل کے اہلکاروں نے محکمہ جیل خانہ جات کے نگرانی کے پورے نظام کو چکما دیا کیونکہ کھدائی چند دنوں میں نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ چوری کا اس وقت پتا چلا جب ان کے محکمے نے غلام سرور سمرا کا تبادلہ کیا اور ان کی جگہ ایماندار پولیس افسر محمد ارشد کو سپرنٹنڈنٹ جیل تعینات کیا اور اپنی تعیناتی کے چند دنوں کے اندر ہی انہوں نے جیل کالونی کی سرکاری زمین پر کھدائی دیکھی۔

اس سوال کے جواب میں کہ ملوث اہلکاروں میں سے ایک اہلکار کے پاس گرین کارڈ بھی تھا اور محکمانہ کارروائی سے بچنے کے لیے وہ پاکستان سے فرار ہونے کی تیاری کر رہا ہے، اس بات کا جواب دیتے ہوئے آئی جی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ محکمے نے اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارشات اعلیٰ حکام کو بھیجی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں