رافعہ ذکریہ وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریہ وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہم پر تقریباً ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے۔ جب ہم اپنے گھر سے باہر جاتے ہیں تو محلے یا دکانوں کے اندر لگے سیکیورٹی کیمرے ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

عوامی مقامات یا نیم عوامی مقامات پر اس قسم کی نگرانی میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ویسے بھی جب ہم گھر سے نکلتے ہیں تو ہم کسی حد تک دیکھے جانے کی توقع کرتے ہیں۔ مسلسل ہونے والی عوامی نگرانی میں فرق یہ ہے کہ جس کام میں انسان سے کوتاہی ہوسکتی ہے وہ کام کیمرے بخوبی کرلیتے ہیں۔

ان کیمروں سے سیکیورٹی سروسز میں انقلاب آگیا ہے۔ اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ کیش رجسٹر میں کس نے چھیر چھاڑ کی، آئس کریم اسٹور میں کس نے چوری کی یا بینک کس نے لوٹا۔ ہر جگہ نہ سہی لیکن کہیں نہ کہیں کوئی کیمرہ ضرور نصب ہوتا ہے جو ہر چیز کو دیکھ اور ریکارڈ کررہا ہوتا ہے۔ عینی شاہدین ہر وقت غلطیاں کرتے ہیں، ان کی نظر، ماحول، یادداشت اور ان کے تعصب سے بھی دھوکا کھایا جاسکتا ہے لیکن کیمرہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔

معاملہ اس وقت پیچیدہ ہوجاتا ہے جب یہ کیمرا آپ کی ذاتی یا نیم ذاتی زندگی میں پہنچ جاتا ہے۔ کیا کسی دفتر میں باس کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ دفتر میں کام کے دوران آپ کی ریکارڈنگ کرے؟ کیمرے کی وجہ سے دفتر جانے کی ضرورت ختم ہوسکتی ہے کیونکہ باس گھر بیٹھے ہی آپ کو اپنے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے دیکھ سکے گا۔ یہ خیال ہی اپنے آپ میں پریشان کن ہے۔ اگرچہ آپ کے آجر کو یہ ممکن بنانے کا حق تو ہے کہ آپ اپنا کام کررہے ہیں لیکن کیا اسے دن بھر آپ کی ریکارڈنگ کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ کیا اسے یہ جاننا چاہیے کہ آپ نے کھانے میں کیا کھایا اور کس شخص سے کتنی مرتبہ بات کی؟

مزید پڑھیے: کیا بلا اجازت کسی کی تصویر لینا درست ہے؟

مختلف لوگوں کا کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ کیا کیمرے نصب کرنے سے اس بات کی قبولیت متاثر نہیں ہوگی؟ کچھ لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وقفہ لے کر بہتر کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ دوسروں کی نسبت جلدی کام کرتے ہیں۔ کسی شخص کا اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا اس بات کی علامت ہرگز نہیں ہے کہ وہ کام کررہا ہے۔ اگر اصل مقصد نتیجہ خیز کام ہی ہے تو پھر اس نگرانی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ باسز یا پھر ساتھ کام کرنے والے مرد خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے ان ریکارڈنگز کا استعمال کرسکتے ہیں۔

ہم پہلے ہی دخل اندازی کے ایک دائرے میں داخل ہوچکے ہیں۔ جب کوئی کمپنی کسی فرد کو بھرتی کرتی ہے تو اس کے ساتھ ایک معاہدہ کرتی ہے جس کی رو سے اس فرد کو کچھ کام کرنے ہوتے ہیں، کمپنی متعین شدہ گھنٹوں کے لیے اس فرد کی مکمل ذات نہیں خریدتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ان ریکارڈنگز کے اختیارات آجر کے پاس ہونے چاہئیں یا ملازم کے پاس؟ اگر آجر یہ ریکارڈنگز کسی تیسرے فرد کو دے دے تو کیا ہوگا؟اور کیا آجر کو ملازمین سے ریکارڈنگ کرنے کی اجازت لینی چاہیے؟ کیا آجر ملازمین کی ان ریکارڈنگز کو سوشل میڈیا پر شیئر کرکے رائلٹی کما سکتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں یہ سب ہورہا ہے۔ ہماری نجی زندگی جو کبھی محفوظ ہوا کرتی تھی اب وہ بھی برائے فروخت ہے۔ وی لاگرز، انسٹاگرامرز اور ٹک ٹاکرز کی بھرمار کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اب نجی اور عوامی زندگی کے درمیان موجود وہ دیوار ہٹاسکتے ہیں جو صدیوں سے حائل تھی۔ یوٹیوب جیسی کمپنیاں ایک ویو پر 18 سینٹ دیتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ ان لوگوں کے چینلز دیکھتے ہیں جو لوگ مواد تیار کررہے ہیں (یا یوں کہیے کہ نجی زندگی کو عیاں کررہے ہیں) تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اچھا خاصا کما رہے ہیں۔ اکثر اوقات تو مواد جتنا زیادہ نجی ہوتا ہے اس پر اتنے زیادہ ویوز آتے ہیں۔

یہاں رضامندی کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ نجی زندگی میں بے جا مداخلت سے بچنے کے لیے پاکستان میں کوئی بہت سخت قانون سازی نہیں ہوئی ہے۔ دیگر ممالک کی طرح ہمارے قوانین بھی ایک ایسی دنیا کے مطابق نہیں ہیں جہاں ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ ہے اور وہ دوسروں کی نجی زندگی کو متاثر کرسکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی ڈاکٹر کے کلینک میں انتظار گاہ میں بیٹھے ہوں اور کوئی آپ کی ویڈیو بنالے، جبکہ آپ نہیں چاہتے کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ آپ کو کسی ذاتی طبّی مسئلے کے حوالے سے مدد کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ جب ان نوجوانوں کی ویڈیوز منظرِ عام پر آتیں ہیں جنہیں جنسی حرکات پر مجبور کیا جاتا ہے تو کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، بعد ازاں ایسی ویڈیوز کو انہیں بلیک میل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں یہ کام خوب پھل پھول رہا ہے کیونکہ جب اس قسم کے کچھ واقعات منظرِ عام پر آتے ہیں اور ان پر ردِعمل آکر ختم ہوجاتا ہے تو چائلڈ پورنوگرافی میں ملوث افراد دوبارہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔

یہاں ہماری مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی بھی توجہ طلب ہے جو ویسے تو اس ملک میں ہر معاملے یا ہر کسی کے معاملے میں سخت نگرانی رکھتی ہے لیکن اس معاملے پر کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر ہم مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس قبیح فعل میں ملوث افراد کا گھیراؤ ہوتا دیکھیں تو یہ یقیناً ایک مثبت تبدیلی ہوگی۔

کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جہاں نجی تعاملات میں طاقت کی حرکیات تبدیل ہوگئیں۔ ہمارے سامنے کچھ ایسے کیسز بھی آئے جن میں خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو ریکارڈ کرلیا۔ اس طرح وہ مقدمات یکسر تبدیل ہوگئے جنہیں عدم ثبوت کے باعث خارج کردیا گیا تھا۔ چونکہ کیمرہ جھوٹ نہیں بولتا اس وجہ سے بدسلوکی کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہوئے اور خود کو کمزور محسوس کرنی والی خواتین ان لوگوں کو قانونی طور پر سزا دلوانے میں کامیاب ہوئیں۔

مزید پڑھیے: شرمناک کیا ہے، سیلفی یا قتل؟

بہرحال اکثر تو یہی ہوتا ہے کہ بدسلوکی کرنے والے کے پاس کیمرہ ہوتا ہے اور وہ اسے کمزوروں کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں نجی ویڈیوز کی وجہ سے خواتین کو قتل کردیا گیا۔ اگرچہ سیل فون ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ ایک اچھی چیز ہے لیکن اسے سمجھنے اور کنٹرول کرنے والوں کی اکثریت مردوں کی ہی ہے۔ ہمارا پدرشاہی نظام اب بھی ہر چیز کے لیے عورت کو ہی قصوروار قرار دیتا ہے۔

اب بھی ایک چیز ہے جو کیمرے کے سچ سے زیادہ طاقتور ہے اور وہ ایک ایسے ملک کا دھوکا ہے جہاں خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دنیا کے ہر شخص کو بھی ظلم و زیادتی نظر آرہی ہو تب بھی ہمارا رویہ وہی رہتا ہے۔ شاید مستقبل میں کبھی ہم اپنا رویہ درست کرلیں اور یہ سمجھ لیں کہ ہر جگہ کیمروں کا ہونا اور ہر وقت بلیک میل ہونا، نگرانی اور نجی زندگی کے حوالے سے ہونے والی بحث کو تبدیل کررہا ہے۔


یہ مضمون 15 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں