عدالتی احکامات کے باوجود کارونجھر کی کٹائی پر ماحول دوست نالاں

اپ ڈیٹ 20 جون 2022
گزشتہ چند سال سے کارونجھر کی کٹائی کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے—فوٹو: امتیاز دھارانی
گزشتہ چند سال سے کارونجھر کی کٹائی کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے—فوٹو: امتیاز دھارانی

پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے والے صحرائے تھر کے تاریخی شہر ننگر پارکر کو اپنے وجود میں لیے ہوئے تاریخی اور ثقافتی پہاڑی سلسلے ’کارونجھر‘ کی کٹائی نہ رکنے پر ماحول دوست افراد نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سندھ اور اعلیٰ عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔

’کارونجھر‘ پہاڑی سلسلہ صحرائے تھر میں واحد ایسی پرکشش چیز ہے، جو مذکورہ علاقے کو منفرد بناتی ہے اور یہ پہاڑی سلسلہ ہزاروں سال سے مختلف تہذیبوں، مذاہب اور قوموں کی آماجگاہ رہا ہے۔

کارونجھر کے ارد گرد مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں—فوٹو: امتیاز دھارانی
کارونجھر کے ارد گرد مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں—فوٹو: امتیاز دھارانی

اسی پہاڑی سلسلے پر گزشتہ چند سال سے کٹائی کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے، پہلے مذکورہ پہاڑ پر بڑی اور معروف کمپنیاں کٹائی کرنے میں مصروف تھیں تو اب اسے چھوٹے ٹھیکیدار اور بااثر لوگ کاٹنے میں مصروف ہیں۔

کارونجھر میں قیمتی پتھر گریناٹ وافر مقدار میں موجود ہے—فوٹو: امتیاز دھارانی
کارونجھر میں قیمتی پتھر گریناٹ وافر مقدار میں موجود ہے—فوٹو: امتیاز دھارانی

قیمتی پتھر گریناٹ سے مالا مال کارونجھر کو ابتدائی طور پر چند سال قبل ’کوہ نور اور ایف ڈبلیو او‘ نامی کمپنیوں نے کاٹنا شروع کیا تھا، جس کے خلاف لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا اور بعد ازاں تھرپارکر کی مقامی عدالت نے دونوں کمپنیز کو کٹائی سے روک دیا تھا۔

اگرچہ کوہ نور اور ایف ڈبلیو او نامی کمپنیاں اب کارونجھر پر کٹائی نہیں کرتیں، تاہم اب ان کی جگہ چھوٹے ٹھیکیداروں اور بااثر افراد نے لے لی ہے، جنہوں نے غیر قانونی طور پر کئی ماہ سے پہاڑی کاٹنے کا سلسلہ جوں کا توں جاری رکھا ہوا ہے۔

کارونجھر پہاڑ کے دامن  میں ننگر پارکر شہر آباد ہے—فوٹو: امتیاز دھارانی
کارونجھر پہاڑ کے دامن میں ننگر پارکر شہر آباد ہے—فوٹو: امتیاز دھارانی

ٹھیکیداروں اور بااثر لوگوں کی جانب سے کارونجھر کی کٹائی جاری رکھے جانے پر سندھ سمیت ملک بھر کے ماحول دوست افراد نے ٹوئٹر پر ’سیو کارونجھر‘ کا ٹرینڈ بھی چلایا، جس میں لوگوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ تاریخی اور ثقافتی پہاڑی کو کاٹنے سے بچاکر فطرت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

کارونجھر کو کاٹنے کے عمل پر معروف کرکٹر شاہنواز دہانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے بھی ’ہیش ٹیگ‘ سیو کارونجھر کا استعمال کرتے ہوئے اس کی کٹائی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔

سوشل میڈیا اسٹار اور ٹک ٹاکر اقصیٰ کینجھر جمالی نے بھی کارونجھر پر کھچوائی گئی اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے اس کی کٹائی پر احتجاج کیا اور پہاڑ کو اپنی شناخت قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ سندھ کی شناخت کو محفوظ بنایا جائے۔

تھر سے تعلق رکھنے والے صحافی امتیاز دھارانی نے بھی کارونجھر کی کٹائی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور لکھا کہ مذکورہ پہاڑی سلسلہ نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے زندگی کا مسئلہ ہے بلکہ یہ جانوروں اور نایاب پرندوں کی نسلوں کے لیے بھی سالوں سے محفوظ آماجگاہ بنا ہوا ہے، اس لیے اس کی حفاظت کو یقینی بنانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

حلیم عادل شیخ کے نام سے بنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی کارونجھر کی کٹائی کے خلاف ٹوئٹ کی گئی اور ان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ سندھ حکومت کے آشيرواد سے قیمتی پتھر چوری کیا جارہا ہے۔

ماحول دوست کارکن خالد کوری نے اپنی ٹوئٹ میں کارونجھر کو افسانوں اور حقیقی داستانوں کو پہاڑ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اسے محفوظ بنا کر تاریخ اور فطرت کو بچایا جائے۔

صحافی رحمت تنیو نے بھی کارونجھر کی غیر قانونی کٹائی پر احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت کی سرپرستی میں کٹائی کی جا رہی ہے۔

لکھاری امر فیاض کی جانب سے بھی کارونجھر کی کٹائی کے خلاف ٹوئٹ کی گئی اور انہوں نے لکھا کہ کارونجھر سندھ کی شناخت ہے، اسے بچانا، اپنی شناخت کو محفوظ بنانا ہے۔

سنجھے متھرانی نے اپنی ٹوئٹ میں کارونجھر کو تاریخی اور مذہبی لوک داستانوں کا آستان قرار دیتے ہوئے اس کی کٹائی پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

تبصرے (0) بند ہیں