برطانیہ: ریلوے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر تاریخ کی بدترین ہڑتال

اپ ڈیٹ 22 جون 2022
برطانیہ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر ملازمین نے ریلوے نظام روک دیا —فوٹو:رائٹرز
برطانیہ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر ملازمین نے ریلوے نظام روک دیا —فوٹو:رائٹرز

برطانیہ میں ریلوے کے ہزاروں ملازمین نے گزشتہ 30 برسوں میں تاریخ کی سخت ہڑتال کے پہلے دن ریلی نکالی، جس کے نیتجے میں مسافروں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ یونین اور حکومت دونوں نے تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملے پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 40 ہزار سے زائد ریلوے ملازمین میں سے کئی ملازمین ہڑتال کا اعلان کرچکے ہیں اور صبح سے ہی پیکٹ لائنوں پر جمع ہو گئے، جس کے باعث پورے نیٹ ورک میں بدترین خلل پیدا ہوگیا اور ریلوے نظام شدید متاثر ہوگیا، لندن انڈر گراؤنڈ میٹرو بھی ہڑتال کی وجہ سے بند رہی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ نے جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی

برطانیہ میں دہائیوں میں بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنے والے شہریوں کی مدد کے لیے دباؤ کا سامنا کرنے والے وزیر اعظم بورس جانسن، نے کہا ہے کہ ہڑتال سے کاروبار کو نقصان پہنچے گا حالانکہ ملک ابھی عالمی وبا کورونا کے نقصانات کے بعد بحالی کا جانب گامزن ہے۔

دوسری طرف یونینز نے کہا ہے کہ ریل ہڑتالیں اساتذہ، ڈاکٹرز، فضلہ ٹھکانے لگانے والے اہلکاروں اور یہاں تک کہ وکلا کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہڑتال کا آغاز کر سکتی ہیں کیونکہ مہنگائی 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل آف ریل مِک لنچ، میری ٹائم اور ٹرانسپورٹ ورکرز نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ برطانوی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے، ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ چند ساتھی خدمات جاری رکھنے کے لیے رات بھر کام کی جگہ پر ہی سو گئے تھے۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

بوری جانسن نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ہڑتالیں ’غلط اور غیر ضروری‘ ہیں اور ملک کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ انہیں حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریلوے چلانے کے طریقوں میں بہتری عوام کے مفاد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2019: پاکستان ریلوے کے لیے بدترین ثابت، 100 سے زائد حادثات

مہنگائی میں اضافہ

توانائی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ سے پورے یورپ میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح ملازمین کی ہڑتالوں کا سامنا کرنے والا ملک صرف برطانیہ نہیں بلکہ متعدد ممالک میں اسی طرح کی ہڑتالیں ہونے لگی ہیں۔

بیلجیئم میں مہنگائی کے خلاف اقدامت کے باعث پیر کو برسلز ایئرپورٹ پر خلل پڑا جبکہ جرمنی کی سب سے طاقت ور یونین اجرتوں میں بڑے اضافے پر زور دے رہی ہے اور فرانس میں صدر ایمانوئل میکرون کو پنشن اصلاحات پر بدامنی کا سامنا ہے۔

برطانیہ کی معیشت ابتدائی طور پر کورونا کی وبائی بیماری سے بحال ہوئی لیکن مزدوروں کی قلت، سپلائی چین میں خلل، افراط زر اور بریگزٹ کے بعد کے تجارتی مسائل کے امتزاج نے معاشی ترقی میں خلل پیدا کیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ لاکھوں غریب گھرانوں کی مدد کر رہی ہے لیکن خبردار کیا ہے کہ مہنگائی سے زیادہ تنخواہوں میں اضافہ معیشت کو نقصان پہنچائے گا اور مسئلہ مزید بڑھے گا۔

برطانیہ کی ریلوے کو وبائی مرض میں قومی تحویل میں دیا گیا تھا، ٹرین چلانے والی کمپنیوں نے اپنی خدمات دینے کے لیے مقررہ فیس ادا کی تھی جبکہ ٹریک اور انفراسٹرکچر کا انتظام سرکاری نیٹ ورک ریل کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

آر ایم ٹی کا مقصد یہ ہے کہ اس کے اراکین کی تنخواہ میں کم از کم 7 فیصد کا اضافہ ہو، لیکن ان کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک ریل نے 2 فیصد کی پیش کش کی ہے، اور ایک فیصد صنعتی اصلاحات سے منسلک ہے جس کی وہ مخالفت کرتی ہے۔

ملازمین سے مذاکرات نہ کرنے پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے، حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یونینز کو اسے براہ راست آجروں کے ساتھ حل کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: میٹر گیج ریلوے سسٹم: تاریخ، اہمیت، اور تباہی

برطانوی ریلوے ملازمین کی بڑی تعداد جو ٹریڈ یونین کے ارکان ہیں وہ 1970 کی دہائی سے تقریباً نصف رہ گئے ہیں جن میں واک آؤٹ بہت کم ہوتا ہے، جس کی وجہ سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی طرف سے ہڑتال کا اعلان کرنے کو مشکل بنانے کے لیے کی گئی تبدیلیاں ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ٹرین آپریٹرز کو ہڑتال کے دنوں میں کم از کم سروس کی فراہمی پر مجبور کرنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کرے گی اور آجروں کو ریلوے میں عارضی عملہ بھرتی کرنے کی اجازت دے گی۔

برطانیہ میں ہڑتالیں اس وقت ہوئیں جب برطانوی ہوائی اڈوں پر مسافروں کو عملے کی کمی کی وجہ سے افراتفری کے دوران تاخیر اور آخری لمحات میں پروازوں کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جبکہ صحت کی خدمات وبائی امراض کے دوران التوا کا شکار ہونے والی طویل فہرستوں کی وجہ دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں