کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات آئین کے تحت ہوں گے، رانا ثنااللہ

اپ ڈیٹ 22 جون 2022
وزیرداخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے گا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیرداخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے گا—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کے بعد وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سمیت عسکری قیادت بھی موجود تھی۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد کی صورت حال اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے شرکا کو تفصیل سے بریفنگ دی گئی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس طرح کی بریفنگ اور پارلیمان کو 'آن بورڈ' لینے کے لیے پارلیمنٹ کا اِن کیمرا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں وزیراعظم اس بریفنگ سے پارلیمنٹ کے اراکین کو آگاہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا جنگ بندی میں توسیع کا اعلان

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو پارلیمنٹ کی نگرانی میں آگے بڑھایا جائے گا، بنیادی اصول طے کیا گیا ہے کہ مذاکرات آئین کے تحت ہوں گے اور امن و امان کو آئین کے تحت حاصل کیا جائے گا۔

قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کے حوالے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی جانب سے ملکی سلامتی کی مجموعی صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کو ملک کی داخلی اور خارجہ سطح پر لاحق خطرات اور ان کے تدارک کے لیے قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیاگیا۔

اجلاس کے حوالے سے کہا گیا کہ پاک-افغان سرحد پر انتظامی امور کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن واستحکام کے لیے نہایت ذمہ دارانہ اور مثبت کردار ادا کیا ہے اور امن اور استحکام کے لیے اپنا تعمیری کردار جاری رکھے گا۔

اس حوالے سے امید کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا نیب ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

اعلامیے کے مطابق شرکا کو ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں بھی تفصیلات اور پس منظر سے آگاہ کیا گیا جس میں بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس دوران ہونے والے مختلف ادوار پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس کو بتایاگیا کہ افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے جس میں حکومت کی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نمائندگی کرتے ہوئے آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کر رہی ہے اور حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ راہنمائی اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ سیاسی قیادت نے معاملات سے نمٹنے کی حکمت عملی اور اس میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔

قومی سلامتی سے متعلق اجلاس میں قرار دیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں اور قربانیوں کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔

مزید پڑھیں: نیب قوانین میں ترمیم سے مسلم لیگ (ن) کے کیسز ختم کرنے کا تاثر غلط ہے، شاہدخاقان عباسی

بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ملک بھر میں ریاستی عمل داری، امن کی بحالی اور معمول کی زندگی کی واپسی یقینی بنائی گئی ہے، آج پاکستان کے کسی حصے میں بھی منظم دہشت گردی کا کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہا۔

عمران خان کا امریکی سازش کا بیانیہ کہاں گیا، رانا ثنااللہ

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمران خان نیب اصلاحات کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اور خرم دستگیر کے بیان کا حوالہ دے رہے ہیں کہ اگر یہ مجھے نہ ہٹاتے تو میں ان کو جیلوں میں بھیج دیتا یا پھر ان کو مقدمات میں سزائیں ہو جاتیں، لہٰذا انہوں نے مجھے مہنگائی کی وجہ سے نہیں ہٹایا۔

انہوں نے کہا کہ ان سے پوچھا جانے چاہیے کہ وہ تمہارا امریکی سازش کا بیانیہ کدکھر گیا اور اگر تم یہ کہہ رہے ہو کہ میں نے نیوٹرلز سے کہا تھا کہ مجھے نہ ہٹایا جائے اور انہوں نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہم کسی صورت شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں بنائیں گے کیونکہ ان کے خلاف 70 کیسز ہیں۔

وزیر داخلہ نے عمران خان کے بیان پر سوال اٹھایا کہ اس سے پہلے جو تم قوم کے ساتھ فراڈ کرتے رہے تھے کہ سازش کے نتیجے میں مجھے ہٹایا گیا ہے، اور جب تمہاری یہ بات نہیں چلی تو تم مختلف بات لے کر آ گئے ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک نیب قانون میں اصلاحات کا تعلق ہے، قتل کے کیسز سمیت گھناؤنے جرم میں سی ایف ٹی سی کے تحت عام ریمانڈ ہے، اس سے نافذ کیا گیا ہے، ہم نے 90، 90 دن کاٹے ہیں، اگر ریمانڈ کا دورانیہ 14 دن تک محدود ہوا ہے تو اس کا فائدہ آپ کو پہنچے گا، آپ کی شہزادی فرح گوگی اور ان کے شوہر کو پہنچے گا اور عثمان بزدار کو 90 دن کا ریمانڈ نہیں کاٹنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے دھمکی آمیز بیانات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی تشکیل

سابق وزیراعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو اس طرح لوٹا گیا ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں آپ کے فرنٹ مینوں کا نام نکلتا ہے، بنی گالا میں 240 کنال اراضی نکل آتی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ میں نے بڑی وضاحت سے 10 دن قبل کہا تھا کہ ایک بندے کا 50 ارب روپے جو کہ برطانیہ سے قومی خزانے میں واپس آنا تھا، وہاں پر پیسا پکڑا گیا جو غیر قانونی چینل یا منی لانڈرنگ کے ذریعے سے گیا، نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے قانون کے مطابق وہ پیسا پاکستان کے خزانے میں آنا تھا، اس پیسے میں سے 5 ارب آپ نے خود لیا اور 2 ارب آپ کے فرنٹ مین شہزاد اکبر نے لیا اور قوم کا 43 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا آپ نے آج تک اس پر بات نہیں کی، اسی طرح بنی گالا میں 240 کنال اراضی کا جواب دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن سے فرح گوگی کے کھاتے میں کس طرح آئی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اسی طرح القادر ٹرسٹ میں آپ اور آپ کی اہلیہ ٹرسٹی ہیں وہاں پر 458 کنال اراضی حاصل کی گئی ہے، ان دونوں کی ملکیت تقریبا 5 سے 6 ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔

مزید پڑھیں: رانا ثنااللہ کےخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کس چکر میں آپ کو یہ دی گئی ہے جبکہ وہاں پر یونیورسٹی کی تعمیر کا وعدہ انہی دنوں میں کیا گیا جب آپ نے 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا، اسی دوران یہ چیزیں ہوئیں، آپ نے 10 دن سے کوئی جواب نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ منیجمنٹ کمپنی (فڈمیک) میں اسپیشل اکنامک زون ہے وہاں پر 10 ایکڑ کی جگہ کا قبضہ لے کر دیا گیا، اس کا پتا کیا گیا تو معیز فوڈ انٹرپرائزز کے دو ڈائریکٹرز ہیں جبکہ وہ ایک ارب روپے کا پروجیکٹ ہے اس میں بھی فرح گوگی اور بشریٰ خان کے نام سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیسز کا معاملہ جب لاہور ہائی کورٹ میں پہنچا، جہاں پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بینچ کے استفسار پر نیب نے باقاعدہ یہ بیان دیا کہ کرپشن کا تو ہمارا الزام ہی نہیں ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آپ اپنے دور حکومت میں کچھ بھی ثابت نہیں کرسکے تو اب آپ اس پر کیا بات کر رہے ہیں کہ یہ چیزیں اب ثابت نہیں ہوسکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا ترمیمی ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوا ہے، 85 فیصد ایسی ترامیم ہیں جو پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار میں مختلف مرحلوں پر تین آرڈیننس نافذ کیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 90 روز کے ریمانڈ پر اعتراض کیا گیا ہے حالانکہ کئی کیسز میں 90 روز کے بعد بھی چالان پیش نہیں کیا گیا، حتیٰ کہ ایک،ایک سال لوگوں کو جیلوں میں رکھا گیا، تو ہم نے اس غلط قانون کو ٹھیک کیا ہے تو اپنے لیے کیا ہے؟

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تفتیش کریں، ثبوت لائیں اور اگر ضرورت ہے تو گرفتار کرکے 14 دن کے اندر نا صرف تفتیش مکمل کریں بلکہ چالان بھی پیش کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ان کی اس بات کا تعلق ہے کہ نیب کو ثابت کرنا پڑے گا، اگر نیب کسی جرم کے الزام میں گرفتار کرتا ہے تو پھر ثابت کون کرے گا؟ ظاہر ہے نیب کو ہی ثابت کرنا پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں