ملک میں مہنگائی کی شرح 15 فیصد سے تجاوز کرجانے کا اندیشہ

30 جون 2022
ملک کی صنعتی سرگرمیاں بیرونی حالات بشمول پاکستان کی اہم برآمدی منڈیوں کے گردشی اثرات کے خطرے سے دوچار ہیں—تصویر: رائٹرز
ملک کی صنعتی سرگرمیاں بیرونی حالات بشمول پاکستان کی اہم برآمدی منڈیوں کے گردشی اثرات کے خطرے سے دوچار ہیں—تصویر: رائٹرز

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں مزید اضافے کا اشارہ دیتے ہوئے، وزارت خزانہ نے موجودہ ناموافق عالمی ماحول اور بلند ملکی افراطِ زر کے پیشِ نظر اندازہ لگایا ہے کہ آئندہ مالی سال میں معیشت کی 'ترقی کے امکانات دھندلے‘ رہیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعے سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 15 فیصد سے تجاوز کرسکتی ہے۔

وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر ونگ (ای اے ڈبلیو) نے جون اور آؤٹ لک کے لیے اپنی ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ میں کہا کہ مالی سال 2022 میں 5.97 فیصد کی نمو حاصل ہونے کے باوجود، ملکی اور بین الاقوامی خطرات سے منسلک بنیادی معاشی عدم توازن، ترقی کے منظر نامے کو مبہم بنا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کی شرح ڈھائی سال کی بلند ترین سطح 13.76 فیصد پر پہنچ گئی

اس کے ساتھ ہی (ای اے ڈبلیو) نے یہ بھی خبردار کیا کہ سپلائی کی رکاوٹوں اور بین الاقوامی اجناس کی بلند قیمتوں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کی ڈیمانڈ مینجمنٹ پالیسی کامیاب ہونے کا امکان نہیں اور اس سے آمدنی کی سطح میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں معاشی نمو کو وسیع تر معاشی عدم توازن کی وجہ سے چیلنجنگ صورتحال کا سامنا ہے‘ حالانکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جو ابتدائی تین سہ ماہیوں کے دوران زیادہ رہا، اس مالی سال کے آخر اور اس کے بعد کم ہو سکتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کو ملکی توانائی کی مصنوعات تک منتقل کرنے میں تاخیر سے مہنگائی میں اضافہ متوقع ہے حالانکہ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں کمی اور استحکام کے بعد افراط زر کا دباؤ کم ہو سکتا ہے، آگے بڑھتے ہوئے امکان ہے کہ پاکستان کی ترقی کے امکانات تسلی بخش رہیں گے۔

مزید پڑھیں: گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں 3.38فیصد اضافہ

تاہم ممکنہ خطرات کی تعداد اسے راستے سے زیادہ سے زیادہ ہٹا سکتی ہے، سب سے پہلے پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں کی سائیکلکل پوزیشن کسی حد تک خراب ہو رہی ہے، ان کے مرکزی بینک افراط زر کا مقابلہ کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں، اس طرح ان ممالک میں ممکنہ کساد بازاری ہو سکتی ہے۔

دوسرا اسٹیٹ بینک پاکستان ملکی شرح سود میں مزید اضافہ کر سکتا ہے، اکنامک آؤٹ لک نے خبردار کیا کہ ایس بی پی کی ڈیمانڈ مینجمنٹ پالیسی شاید زیادہ کارگر نہیں ہو کیونکہ افراط زر کی موجودہ لہریں زیادہ تر سپلائی کی رکاوٹوں اور بین الاقوامی قیمتوں خصوصاً اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہیں اور شرح تبادلہ میں کمی بھی تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس سے درآمد شدہ خام مال زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔

تیسرا مقامی صارفین کے لیے قیمتوں میں مسلسل اضافہ حقیقی آمدنی کو کم اور صارفین اور سرمایہ کاروں کی خرچ کرنے کی طاقت کو محدود کر رہا ہے، یہ خطرے والے عوامل بالخصوص عارضی سائیکلیکل آؤٹ پٹ گیپ کو منفی طور پر متاثر کر کے میکرو اکنامک ماحول اور ترقی کے امکانات کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

رپورٹ میں دلیل دی گئی کہ معیشت طویل عرصے میں ممکنہ پیداواری صلاحیت کی جانب مڑ جائے گی بشرطیکہ ٹھوس ردعمل پائیدار طویل مدتی ترقی کی رفتار کی بنیاد رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی 3 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے ساتھ ایسے اقدامات بھی ہونے چاہئیں جن کا مقصد پاکستان کی ممکنہ پیداوار کی نمو کو تقویت دینا ہے، ان اقدامات میں سرمایہ کاری کا مفید ماحول پیدا کرنا، اعتماد کو فروغ دینا اور اعلیٰ ترقی کی صلاحیت کے حامل امید افزا اقتصادی اقدامات کے لیے محرک شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ مناسب ڈیمانڈ مینجمنٹ پالیسیوں سے کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت نے بڑھتے ہوئے دو خساروں پر قابو پانے کے لیے ایندھن اور توانائی کی مصنوعات پر سبسڈی واپس لے لی تھی جس کے نتیجے میں تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا۔

مزید برآں اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں حالیہ اضافہ، خاص طور پر توانائی اور خوراک کی قیمتیں بھی مقامی قیمتوں پر اثر انداز ہوں گی اور یہ کہ اس منظر نامے کے پیشِ نظر جون میں سالانہ اعتبار سے مہنگائی بلند ہونے اور 14.5 سے 15.5 فیصد تک پہنچنے کاامکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حکومت کا پہلا مہینہ، مہنگائی 27 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی صنعتی سرگرمیاں بیرونی حالات بشمول پاکستان کی اہم برآمدی منڈیوں کے گردشی اثرات کے خطرے سے دوچار ہیں۔

ملک کا اگلے سال کے لیے زرعی ترقی کا تخمینہ 3.9 فیصد ہے لیکن یہ ہدف بنیادی طور پر کپاس اور گندم کی پیداوار کی بحالی، پانی کی مسلسل دستیابی، تصدیق شدہ بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات اور زرعی قرضے کی سہولیات جیسے عوامل کے ایک سلسلے پر منحصر ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس یوکرین تنازع، توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے، محرک پروگراموں کے الٹ جانے، سخت مالیاتی پالیسی اور چینی لاک ڈاؤن کی وجہ سے امریکی معیشت میں توسیع سست پڑ رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں