اسکینڈلز کے شکار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے استعفیٰ دے دیا

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2022
بورس جانسن نے کہا کہ اگلے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھوں گا — فوٹو: رائٹرز
بورس جانسن نے کہا کہ اگلے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھوں گا — فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے مختلف اسکینڈلز کے باعث ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا اور کہا کہ اگلے وزیراعظم کے انتخاب تک وہ کام کرتے رہیں گے۔

بورس جانسن نے لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ ‘نئے سربراہ کے انتخاب کا عمل اب شروع ہونا چاہیے’۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ واضح ہے کنزرویٹو پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کو نیا لیڈر منتخب کرنا ہوگا تاکہ نیا وزیراعظم بھی منتخب ہو۔

بورس جانسن نے کہا کہ میں نے نئی کابینہ تشکیل دے دی ہے کیونکہ میں نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھوں گا۔

کنزرویٹو پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین جسٹن ٹوم لنسن نے ٹوئٹر پر کہا کہ ان کا استعفیٰ ناگزیر تھا، بطور پارٹی ہمیں طوری طور پر متحد ہونے اور معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی حوالوں سے یہ ہمارے لیے اہم حالات ہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کو اب نیا لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا اور اس عمل کے لیے کئی ہفتے اور مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔

اس سے قبل کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں سیاسی بحران کے شدت اختیار کرنے کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن آج متوقع طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے اور وہ اس حوالے سے بیان بھی جاری کریں گے۔

خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے پولیٹیکل ایڈیٹر کرس میسن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ بورس جانسن، کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیں گے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کے دو اہم وزرا مستعفی، بورس جانسن کی حکومت ختم ہونے کا خطرہ

واضح رہے کہ بورس جانسن پر گزشتہ چند دنوں سے استعفے کے لیے دباؤ تھا اور اہم وزرا کی جانب سے استعفوں اور عوام اور اپوزیشن کے مطالبے کے باوجود انہوں نےعہدہ چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے دو دن قبل جس شخص کا وزیر خزانہ کے عہدے پر تقرر کیا تھا، اسی نے جمعرات کو انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔

سیکریٹری دفاع بین ویلس نے بھی بورس جانسن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ساتھ ساتھ اس بات کے عزم کا بھی اعادہ کیا تھا کہ وہ اپنے عہدے پر فائز رہیں گے تاکہ وہ ملکی سیکیورٹی برقرار رکھ سکیں۔

’دی سن‘ کے پولیٹیکل ایڈیٹر ہیری کول نے کہا کہ بورس جانسن نئے سربراہ مملکت کے انتخاب تک وزیراعظم کے منصب پر فائض رہنا چاہتے تھے جہاں نئے سربراہ کے انتخاب کے عمل میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: ریلوے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر تاریخ کی بدترین ہڑتال

گزشتہ چند گھنٹے کے دوران دو سیکریٹری اسٹیٹ سمیت 8 وزرا کے استعفوں کے بعد اختیارات سے محروم بورس جانسن کے لیے استعفیٰ دینا ناگزیر ہو گیا ہے اور وہ جلد اس حوالے سے اعلان کریں گے۔

کئی ماہ سے مختلف اسکینڈلز سے نبرد آزما برطانوی وزیراعظم اب تنہا رہ گئے ہیں اور اب ان کے اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور ان کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین جسٹن ٹاملنسن نے ٹوئٹر پر کہا کہ ان کا استعفیٰ ناگزیر تھا، ایک پارٹی کے طور پر ہمیں فوری طور پر متحد ہونا چاہیے اور ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اہم ہیں، یہ بہت سے محاذوں پر سنجیدہ وقت ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کو اب نئے لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا اور اس عمل میں تقریباً دو ماہ لگ سکتے ہیں۔

حالیہ برطانوی سیاسی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز 24 گھنٹوں میں بورس جانسن کی حمایت تیزی سے ختم ہورہی ہے اور منگل کو وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے والے ندیم زہاوی نے اپنے باس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: بورس جانسن نے لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی کے انعقاد پر معافی مانگ لی

انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ معاملہ زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہے گا اور وقت کے ساتھ مزید خراب ہو جائے گا، آپ کے لیے کنزرویٹو پارٹی کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک کے لیے آپ کو درست قدم اٹھانا چاہیے اور ابھی جانا چاہیے۔

وزیر دفاع بین والیس سمیت عہدے پر رہنے والوں میں سے کچھ نے کہا کہ وہ ایسا صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ملک کو محفوظ رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں وزرا کے استعفے آنے کے بعد حکومتی امور مفلوج ہو چکے ہیں۔

بورس جانسن تقریباً تین سال قبل اقتدار میں آئے تھے اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور اسے 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد ہونے والے جھگڑے سے نجات دلائیں گے۔

اس کے بعد سے کنزرویٹو پارٹی کے کچھ لوگوں نے جوش و جذبے سے سابق صحافی اور لندن کے میئر کی حمایت کی تھی جبکہ دیگر لوگوں نے تحفظات کے باوجود ان کی حمایت کی کیونکہ ان ووٹرز کے ووٹ حاصل کر سکتے تھے جو عام طور پر ان کی پارٹی کو مسترد کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے مسلمان با پردہ خواتین سے متعلق بیان پر معافی مانگ لی

یہ دسمبر 2019 کے انتخابات میں ظاہر بھی ہوا تھا لیکن ان کی انتظامیہ کو حکومت کرنے کے لیے اکثر افراتفری کا سامنا کرنا پڑا اور اسکینڈلز کے تسلسل نے ان کے بہت سے اراکین اسمبلی کی ساکھ کو متاثر کیا جبکہ رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب عوام میں بڑے پیمانے پر مقبول نہیں ہیں۔

حالیہ بحران اس وقت شروع ہوا جب قانون ساز کرس پنچر، جنہوں نے پادریوں کی دیکھ بھال میں ملوث حکومتی کردار ادا کیا، کو ان الزامات کے باعث استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا جب اس نے ایک پرائیویٹ ممبر کے کلب میں مردوں کو پکڑ لیا۔

گزشتہ دنوں جنسی بدسلوکی کی شکایات کا سامنا کرنے والے رکن پارلیمنٹ کرسٹوفر پنچر کو بورس جانسن نے اہم وزارت دی اور پھر بعد میں انہیں یہ عہدہ سونپنے پر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ بات بھول گئے تھے، اس کے نتیجے میں ان کے دو اہم وزرا نے فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس کے بعد ڈاؤننگ اسٹریٹ کی رہائش گاہ پر پارٹی میں کووڈ-19 کے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی اور اپنی 56ویں سالگرہ کی تقریب پر پولیس کی طرف سے جرمانے جیسے اسکینڈل نے بھی ان کی حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں