پنجاب اسمبلی کا ’متنازع سیشن‘، مخصوص نشستوں پر پانچ پی ٹی آئی اراکین نے حلف اٹھا لیا

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2022
ان پانچ اراکین نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کیے گئے اراکین صوبائی اسمبلی کی جگہ حلف اٹھایا ہے — فائل فوٹو: اے پی پی
ان پانچ اراکین نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کیے گئے اراکین صوبائی اسمبلی کی جگہ حلف اٹھایا ہے — فائل فوٹو: اے پی پی

پنجاب اسمبلی کے ‘متنازع’ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخصوص نشستوں کے کوٹے سے تعلق رکھنے والے 5 اراکین صوبائی اسمبلی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا جس کا حکومتی بینچز نے بائیکاٹ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی مخصوص نشستوں پر بتول زین، سائرہ رضا اور فوزیہ عباس نسیم نے حلف اٹھایا جبکہ اقلیتی نشستوں پر حبکوک رفیق ببو اور سیمیول یعقوب نے حلف اٹھایا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن: پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی اراکین کا نوٹیفیکیشن جاری

انہوں نے عظمیٰ کاردار، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، اعجاز مسیح اور ہارون عمران گل کی جگہ لی ہے جن کو جنرل نشستوں پر منتخب دیگر 20 اراکین اسمبلی کے ہمراہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دے کر پارٹی لائن سے انحراف کرنے پر ڈی نوٹیفائی کیا تھا۔

پنجاب کے محکمہ قانون کے ایک سینئر افسر نے حلف برداری کی تقریب کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس اجلاس میں یہ ہوا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، اسمبلی کے جس اجلاس میں پانچ اراکین صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھایا، اسے صوبائی سیکریٹری قانون نے نہیں بلایا تھا، جو پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ سروسز ایکٹ 2022 کے تحت ایسا کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اس لیے ان کا حلف غیر آئینی ہے۔

اجلاس پر تنازع جون کے دوسرے ہفتے میں اس وقت شروع ہوا جب 22 جولائی کو ہونے والے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے دوبارہ پولنگ میں حمزہ کے مقابلے میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی نے بجٹ پیش کرنے کے لیے بلائے گئے اجلاس میں دو دن تک صوبائی بجٹ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔

پرویز الہٰی پنجاب کے چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس سے بجٹ اجلاس میں ذاتی طور پر پیش اور 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے دفتر کے لیے پہلے پولنگ کے دوران اسمبلی فلور پر پولیس کے 'غیر قانونی' داخلے پر ایوان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

جب دونوں فریق معاملے کو خوش اسلوبی سے حل نہ کر سکے تو حکومت نے گورنر کے احکامات کے ذریعے اجلاس کو ملتوی کر دیا اور بجٹ پیش کرنے کے لیے اسمبلی کے قریب ایک اور مقام پر نیا اجلاس بلایا۔

اسپیکر نے مبینہ طور پر اپوزیشن کی جانب سے طلب کردہ اجلاس بھی بلا لیا، دونوں اجلاسوں کی کارروائی گورنر کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کرنے کے باوجود متوازی چلتی رہی جس پر بعد میں قانون میں دستخط کیے گئے تھے تاکہ اسمبلی سیکریٹری کے اجلاسوں کو طلب اور/یا ملتوی کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جاسکے۔

اسپیکر کی طرف سے اجلاس پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ سروسز ایکٹ 2022 کو کالعدم قرار دینے اور اسمبلی کی آزاد حیثیت کو 'بحال کرنے' کے لیے 'جوابی قانون سازی' کے لیے اجلاس بلایا گیا، تاہم یہ قانون سازی اسی وقت قانون کی شکل اختیار کرے گی جب گورنر اس پر دستخط کریں گے۔

اسپیکر پرویز الہٰی نے منگل کو کارروائی 13 جولائی کو ملتوی کر دی تھی لیکن انہوں نے اجلاس کو دوبارہ جمعرات کے لیے شیڈول کر دیا تاکہ ایک روز قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں پر نوٹیفائی کیے گئے پی ٹی آئی کے 5 اراکین صوبائی اسمبلی حکمراں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عدالت میں کمیشن کے احکامات کو چیلنج کرنے سے پہلے حلف اٹھا سکیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست

پنجاب اسمبلی میں پانچ اراکین اسمبلی کے شامل ہونے سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے دوبارہ پولنگ میں پرویز الہٰی کے ووٹوں کی تعداد 168 سے بڑھ کر 173 ہو گئی ہے جبکہ حمزہ شہباز کے 177 ووٹ ہیں، پنجاب اسمبلی کے باقی 20 حلقوں پر 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات دونوں امیدواروں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں