ناظم جوکھیو قتل: عدالت کا پی پی پی رکن اسمبلی سمیت 10ملزمان پر مقدمہ چلانے کا حکم

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2022
ناظم جوکھیو کو 3 نومبر2021 کوجام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کرکے قتل کیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کو 3 نومبر2021 کوجام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کرکے قتل کیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کی مقامی عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس بجار اور ان کے 9 ملازمین کے خلاف ناظم جوکھیو کے مبینہ قتل، جرم میں معاونت اور شواہد چھپانے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دے دیا۔

27 سالہ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو کراچی کے ضلع ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے الزام عائد کیا تھا کہ مقتول نے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے غیرملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکا تھا اور اس کےنتیجے میں انہیں مبینہ طور پر ٹھٹہ میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کر کے قتل کیا گیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر الطاف حسین تونیو نے پولیس کی جانب سے حتمی چالان جمع کروانے پر کافی تاخیر سے فیصلہ سنایا، اس پر یقین کرنے کی وجوہات ہیں کہ جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے لہٰذا تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 201، 365، 506، 109 اور 34 کے تحت جرائم کے لیے رپورٹ پر نوٹس لیا جاتا ہے، انہوں نے ملزمان پر مقدمہ چلانے کے لیے یہ معاملہ متعلقہ سیشن کورٹ میں بھیج دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس سے پیپلز پاٹی کے اراکین اسمبلی کا نام نکالنے کی کوشش شروع

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ زیرحراست رکن اسمبلی اور ان کے 9 ملازمین حیدر، میر علی، معراج، دودا خان، محمد سومر، نیاز سالار، احمد شورو، زاہد اور محمد سلیم کو بھی مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔

تاہم جج نے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، عبدالرزاق، محمد خان، محمد اسحٰق، عطا محمد اور جمال کا نام ناکافی ثبوت کی وجہ سے مقدمے سے خارج کر دیا۔

رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم دبئی فرار ہو گئے تھے، وہ ضمانت ملنے کے بعد اس وقت کی اپوزیشن کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اہم ووٹ ڈالنے کے لیے پاکستان واپس آ گئے تھے۔

تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ جج نے نوٹ کیا کہ ابتدائی طور پر پولیس نے 5 ملزمان کو گرفتار کیا تھا لیکن عبوری چالان میں تفتیشی افسر نے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس، میر علی اور حیدر علی کو زیرحراست بتایا تھا جبکہ محمد معراج، جمال احمد اور عبدالرزاق کو مفرور ظاہر کیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ملزم احمد شورو، جس کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا، کو تفتیشی افسر نے حتمی رپورٹ میں ناکافی ثبوتوں کے سبب کالم 2 میں نیلی سیاہی سے نام لکھ کر چھوڑ دیا۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل: پی پی پی کے دو اراکین اسمبلی سمیت 23ملزمان چارج شیٹ میں شامل

مزید بتایا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کو جو تیسری چارج شیٹ جمع کروائی گئی تھی اس میں زیرحراست رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا نام بھی کالم 2 میں نیلی سیاہی میں لکھا گیا۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے عبوری چالان میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات لگائی گئی ہیں، ان دفعات میں 302 (قتل)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، دفعہ 365 (اغوا)، دفعہ 210 (شواہد چھپانا)، دفعہ 109 (جرم میں معاونت) شامل ہیں، اور 6 مشتبہ افراد ایم پی اے جام اویس، حیدر علی، میر علی، محمد معراج، جمال احمد عرف جمال واحد اور عبدالرزاق کو عدالتی تحویل میں دکھایا گیا ہے۔

دیگر 5 ملزمان محمد خان، محمد اسحٰق، محمد سلیم، محمد دودا خان، محمد سومر کو ضمانت قبل از گرفتاری کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق تفتیشی افسر نے رپورٹ میں 4 مشتبہ افراد ایم این اے جام عبدالکریم، نیاز سالار، احمد شورو اور عطا محمد کو مفرور بتایا گیا ہے۔

تفتیشی افسر نے دوران تفتیش دفعات 365 اور 109 مقدمے سے ختم کر دی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل: عدالت کی ملزم جام اویس کو جیل میں بی کلاس فراہم کرنے کی ہدایت

عدالت نے نوٹ کیا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے 13 ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنا پر حتمی چالان سے نکال دیا ہے، جن میں ایم پی اے جام اویس، ایم این اے جام عبدالکریم، محمد سلیم، دودا خان، محمد سومر، عبدالرزاق، جمال احمد، محمد معراج، محمد خان، محمد اسحٰق، احمد خان، عطا محمد اور زاہد شامل ہیں۔

جج نے بتایا کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ تفتیشی افسرنے اپنی رپورٹ میں ان حقائق اور حالات کا ذکر نہیں کیا جس کے تحت ملزمان کو الزامات سے رہائی یا ضمانت دی جائے۔

مزید بتایا کہ مشاہدے سےظاہر ہوتا ہے کہ ملزم جام اویس کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا اور گواہان نے ابتدائی بیان میں ان کو جرم میں شامل قرار دیا تھا اور اس کا نام 4 اکتوبر اور 10 دسمبر 2021 کو پیش کیے جانے والے عبوری اور حتمی چالان میں کالم 2 میں رکھا تھا۔

جج نے فیصلہ دیا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے جمع کروائی جانے والی رپورٹ کو کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کی دفعہ 173 کے تحت عدالت اس رپورٹ سے اتفاق یا اختلاف کر سکتی ہے۔

####پولیس عدالت سے باہر مسئلہ حل نہیں کرسکتی

جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر الطاف حسین تونیو نے نوٹ کیا کہ شکایت کنندہ محمد افضل جوکھیو اور مقتول کی اہلیہ شیریں جوکھیو کی جانب سے دیے گئے حلف ناموں کی بنیاد پر جام اویس کا نام نیلی سیاہی سے تیسری چارج شیٹ میں لکھا گیا، ان حلف ناموں میں ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو کیس: حکومتی ملزمان کے گٹھ جوڑ کےخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست

تاہم مجسٹریٹ نے فیصلہ دیا کہ ملزمان کو سمجھوتے کی بنیاد پر چھوڑا گیا جو تفتیشی افسر کا دائرہ کار نہیں ہے بلکہ سمجھوتہ کرانے یا نہ کرانے کا اختیار عدالت یا مجاز اتھارٹی کا ہے، لہٰذا عدالت تفتیشی افسر کی رپورٹ سے متفق نہیں ہے جس میں ایف آئی آر میں نامزد ہونے کے باوجود ملزمان کا نام شامل نہیں کیا گیا، تمام لوگ جرم میں بطور ملزم شامل ہیں جنہیں ٹرائل کورٹ میں مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔

ٹرائل میں تاخیر

واضح رہے کہ بااثر قانون سازوں کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت اب تک شروع نہیں ہوسکی ہے، یہ کیس گزشتہ 7 مہینے سے آگے پیچھے ہو رہا ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کی جانب سے 8 فروری کو عبوری چالان منظور کیا گیا تھا، جس میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائیوں کو عدم شواہد کی بنیاد پر ملزمان کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت کی 2 روز میں چالان جمع کرنے کی ہدایت

تاہم مجسٹریٹ نے چالان منظور نہ کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو ہدایات دیں کہ وہ یہ رپورٹ انسداد دہشت گردی کے جج کو جمع کروائیں، عدالت نے کہا تھا کہ قتل کا جرم دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، بظاہر اس جرم کا ارتکاب جوکھیو قبیلے اور دیگر لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے کیا گیا۔

23 مئی کو اے ٹی سی کے جج نے بھی اس چالان کو منظور نہیں کیا، عدالت کا کہنا تھا کہ یہ قتل نجی تنازع کے نتیجے میں ہوا ہے جو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

تبصرے (0) بند ہیں