یوکرین سے جنگ کے بعد روسی صدر کا پہلا ایرانی دورہ، باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2022
روسی صدر ایران کا دورہ کریں گے جس میں ترکی بھی شامل ہوگا—فائل فوٹو: رائٹرز
روسی صدر ایران کا دورہ کریں گے جس میں ترکی بھی شامل ہوگا—فائل فوٹو: رائٹرز

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے آج ملاقات کریں گے جو کہ رواں برس 24 فروری کو یوکرین کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کے بعد پہلا غیرملکی دورہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن تہران میں نیٹو کے رکن ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے بھی یوکرین جنگ کے بعد پہلی بار براہ راست ملاقات کریں گے، جس میں وہ یوکرین کے بحیرہ اسود سے اناج کی برآمدات کے لیے اجازت دینے والے معاہدے کے ساتھ ساتھ شام میں امن کی بحالی کے لیے قیام پر تبادلہ خیال کریں گے۔

مزید پڑھیں: ایران، یوکرین کےخلاف روس کو ڈرون فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، وائٹ ہاؤس

خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے اسرائیل اور سعودی عرب کے دورے کے ایک دن بعد ولادیمیر پیوٹن نے ایران کا دورہ کرتے ہوئے مغربی پابندیوں کے باوجود ایران، چین اور بھارت کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنے کے ماسکو کے منصوبوں کے بارے میں مغرب کو ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔

پیوٹن کے خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف ماسکو میں نمائندگان کو بتایا کہ روسی صدر کا ایران کے سپریم لیڈر کے ساتھ رابطہ بہت اہم ہے اور دونون کے درمیان دوطرفہ اور بین الاقوامی ایجنڈے کے سب سے اہم مسائل پر اعتماد پر مبنی بات چیت ہوئی ہے اور زیادہ تر معاملات پر ہمارا مؤقف قریب یا ایک جیسے ہیں۔

پابندیوں سے نمٹنے کے لیے متبادل اقدامات کی کوششیں

پیوٹن کا مغرب کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے والے اور جوہری پروگرام سمیت دیگر مسائل پر امریکا کے ساتھ کشیدگی میں الجھے ایران کا دورہ بروقت ہے۔

ایران کے مذہبی رہنما ابھرتے ہوئے امریکی حمایت یافتہ اسرائیل-خلیج عرب بلاک کے مقابلے میں روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں جو مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو ایران سے مزید دور کر سکتا ہے۔

ایران کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یوکرین کی جنگ کے بعد پیدا شدہ جغرافیائی سیاسی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے، تہران واشنگٹن اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ محاذ آرائی میں ماسکو کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران کے جوہری معاہدے کو بچانے کیلئے امریکا سے ضمانتیں مل گئی ہیں، روس

یوکرین کی جنگ کے بعد تیل کی بلند قیمتوں سے مستفید ہونے والے ایران نے اس بات کا ماننا ہےکہ وہ روس کی حمایت سے واشنگٹن پر 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے سخت مؤقف میں نرمی پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔

تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے 2018 میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد چین-ایران کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے لیکن حالیہ مہینوں میں بیجنگ کا روس کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ سے ایران کی طرف سے چین کو خام برآمدات میں نمایاں طور پر کمی دیکھی گئی ہے۔

رواں برس مئی میں رائٹرز نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ چین کے لیے ایران کے خام تیل کی برآمدات میں تیزی سے کمی آئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بیجنگ نے روسی تیل پر بھاری رعایت کی حمایت کی تھی، جس سے تقریباً 4 کروڑ بیرل ایرانی تیل ایشیا میں سمندری ٹینکروں پر رہ گیا تھا اور خریداروں کی تلاش کی جارہی تھی۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی آمد سے قبل نیشنل ایرانی آئل کمپنی اور روسی گیس پروڈیوسر گیزپروم کمپنی نے تقریباً 40 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔

شام میں پرتشدد کارروائیاں روکنے کی کوشش

ایجنڈے میں دیگر معاملات کے ساتھ شام میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی لانے کی کوششوں کا نکتہ بھی سرفہرست ہوگا، جہاں رجب طیب اردوان نے دھمکی دی تھی کہ وہ سرحد کے ساتھ 30 کلومیٹر (20 میل) گہرے ’محفوظ زون‘ کو وسیع کرنے کے لیے مزید فوجی کارروائیاں شروع کریں گے، تاہم روس اور تہران نے ترکی کے ایسے اقدام کی مخالفت کی ہے۔

مزید پڑھیں:یوکرین جنگ: چین نے روس کی مدد کی تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، امریکا

ایرانی سپریم لیڈر نے طیب اردوان سے کہا کہ شام کی علاقائی سالمیت برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور شمالی شام میں کوئی بھی فوجی حملہ یقینی طور پر ترکی، شام اور پورے خطے کے لیے نقصان پہنچانے کا باعث ہوگا جس سے دہشت گردوں کو فائدہ ہوگا۔

ترکی کی جانب سے شام میں کسی بھی کارروائی سے کردستان کی وائی جی پی جنگجوؤں پر حملہ ہوگا جو کہ امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کا اہم حصہ ہے جو شمالی شام کے بہت بڑے حصے پر قابض ہے اور اس سے واشنگٹن داعش کے خلاف ایک اہم اتحادی تصور کرتا ہے۔

ترکی کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ترکی کے منصوبے کے بارے میں تہران میں ہونے والی ملاقات میں تبادلہ خیال کیا جائے گا کیونکہ یہ اطلاعات ہیں کہ روس اور کرد شام کے متعدد علاقوں میں مل کر کام کر رہے ہیں۔

روس اور ایران شام کے صدر بشار الاسد کے سب سے اہم حمایتی ہیں جبکہ ترکی اس کے مخالف باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جو رواں برس 70 سال کے ہو گئے ہیں اور وہ حالیہ برسوں میں کورونا کے وبائی مرض اور پھر یوکرین کے بحران کی وجہ سے محض چند غیر ملکی دورے کر چکے ہیں، تاہم سابق سوویت یونین سے باہر ان کا آخری دورہ فروری میں چین کی طرف ہوا تھا۔

مزید پڑھیں:روس پر پابندیوں میں شامل نہیں ہوں گے، چین

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ان کی دوطرفہ بات چیت یوکرین سے اناج کی برآمدات بحال کرکے مزید آگے بڑھانے پر مرکوز ہوگی۔

توقع کی جا رہی ہے کہ یوکرین سے بحیرہ اسود کے پار اناج کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے یوکرین، ترکی اور اقوام متحدہ اس ہفتے کے آخر میں ایک معاہدے پر دستخط کریں گے

۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں