63 اے سے متعلق کیسز، حکومتی اتحاد کا فل کورٹ کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2022
جاری بیان کے مطابق تمام جماعتوں کے وکلاء سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیں گے— فوٹو: اے ایف پی
جاری بیان کے مطابق تمام جماعتوں کے وکلاء سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیں گے— فوٹو: اے ایف پی

حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین کل صبح ساڑھے 10 بجے مشترکہ پریس کانفرنس میں اہم اعلان کریں گے۔

بیان کے مطابق حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قائدین پریس کانفرنس کے بعد اپنے وکلا کے ہمراہ مشترکہ طور پر سپریم کورٹ جائیں گے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ(ق) کے ووٹ مسترد، حمزہ شہباز دوبارہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب، سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست اور متعلقہ درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرنے کی بھی استدعا کی جائے گی۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سپریم کورٹ جائیں گی جبکہ ایم کیو ایم، اے این پی، بی این پی، باپ سمیت دیگر اتحادی جماعتیں بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔

تمام جماعتوں کے وکلا سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر دلائل دیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ‎حکمراں اتحاد نے مشترکہ و متفقہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی فل کورٹ سماعت کی جائے۔

‎اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ بار کی نظرِ ثانی درخواست اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو عدالت عظمیٰ کے تمام معزز جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرکے اس پر فیصلہ جاری کرے۔

یہ بھی پڑھی: حمزہ شہباز پیر تک بطور 'ٹرسٹی' وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، سپریم کورٹ

اعلامیے میں اس مطالبے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی بھاری قیمت ملکی معیشت دیوالیہ پن کے خطرات اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

حکمراں اتحاد نے اعلامیے میں کہا تھا کہ عمران خان بار بار سیاست میں انتشار پیدا کر رہے ہیں جن کا مقصد احتساب سے بچنا، اپنی کرپشن چھپانا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین نے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح لکیر کھینچی ہوئی ہے جسے ایک متکبر، آئین شکن، فسطائیت کا پیکر مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: حکمران اتحاد کا وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی فل کورٹ سماعت کا مطالبہ

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یہ دراصل پاکستان کے آئین، عوام کے حق حکمرانی اور جمہوری نظام کو بھی معیشت کی طرح دیوالیہ کرانا چاہتا ہے، یہ سوچ اور رویہ پاکستان کے ریاستی نظام کے لیے دیمک بن چکا ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں اس عزم کا واشگاف اعادہ کرتی ہیں کہ آئین، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہر فورم اور ہر میدان میں تمام اتحادی جماعتیں مل کر آگے بڑھیں گی اور فسطائیت کے سیاہ اندھیروں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔

پس منظر

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔

وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 179ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الٰہی کو 186 ووٹ ملے تھے۔

تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے خط کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے (ق) لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'عدالتی فیصلے کو غلط سمجھا گیا'، حمزہ شہباز کی کامیابی پر قانونی ماہرین کی رائے

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپکر کی رولنگ اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کیے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔

آج سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا جبکہ حمزہ شہباز، چیف سیکریٹری پنجاب کو نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی اسپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور آ کر بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی معاونت کے لیے سپریم کورٹ طلب کر لیا۔

تبصرے (0) بند ہیں