لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

گزشتہ روز حکمران اتحاد نے عدالتِ عظمیٰ میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ ماضی میں ہمیں اس قسم کی کوئی نذیر نہیں ملتی۔

حکمران اتحاد کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب عدالت نے سماعت کے لیے فل کورٹ کی درخواست کو مسترد کردیا۔ حکمران اتحاد نے سماعت کرنے والے ججوں پر ’عدم اعتماد‘ کو اپنے فیصلے کی وجہ بتایا۔

ریاست کے تیسرے ستون کی ساکھ پر شاید پہلی مرتبہ سوال نہیں اٹھایا گیا ہے، لیکن اب جبکہ یہ ادارہ اقتدار کے کھیل میں پھنس گیا ہے تو کئی چیزیں داؤ پر لگ چکی ہیں۔

ہماری ریاست کے 2 ستون یعنی انتظامیہ اور مقننہ تو پہلے ہی مفلوج ہوچکے ہیں اور اب عدلیہ کے کردار پر ہونے والا تنازعہ نظام میں آنے والی تباہی کی نشاندہی کرتا ہے۔ پیشگوئی کے عین مطابق عدالتِ عظمیٰ نے حمزہ شہباز شریف کے انتخاب کو غیر قانونی قرار دے کر پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ حکمران اتحاد کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں اور اب بھی یہ بحران ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

مزید پڑھیے: پنجاب کا سیاسی سرکس

بگڑتے ہوئے سیاسی بحران میں سپریم کورٹ سیاسی لڑائیوں کا مقام بنتا جا رہا ہے۔ متحارب فریقین ان تنازعات میں عدالتی مداخلت کے خواہاں ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں نمٹایا جانا چاہیے تھا۔ انتہائی کشیدہ سیاسی ماحول میں، حساس سیاسی اور آئینی معاملات پر فریقین کے درمیان ثالثی کرنا انتہائی مشکل ہے۔

اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہے کہ عدالت کا حالیہ فیصلہ مزید تنازعات کی وجہ بنا ہے۔ جوڈیشل ایکٹیوازم نے بھی معاملات کو بگاڑا ہے۔ عدلیہ کے کردار کو بڑھا دینے سے اکثر انتظامیہ اور مقننہ کے دائرہ اختیار میں مداخلت ہوتی ہے اور خطرناک عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔

بعض معاملات میں قانون کی تشریح پر سختی سے قائم رہنے کے بجائے آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش نے عدالتِ عظمیٰ کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

انحراف کی شق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے پر حالیہ فیصلہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اکثر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ کو کالعدم قرار دینے کا حکم قانون کی تشریح سے بالاتر اور درحقیقت آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے۔

پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب پر تنازع کی بڑی وجہ یہی متنازعہ فیصلہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور بظاہر متضاد احکامات نے بھی معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس صورتحال میں منحرف اراکین کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی کے لیے فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ غلط نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے کچھ ریٹائرڈ ججوں نے بھی مبیّنہ طور پر فل کورٹ کے مطالبے کی تائید کی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوششوں کے خلاف خبردار کیا تھا۔

یہ تاثر تشویشناک ہے کہ حساس سیاسی اور آئینی معاملات کی سماعت کے لیے ایک ہی بینچ قائم کیا جاتا ہے جبکہ دیگر سینیئر ججوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس سے فیصلوں کی ساکھ پر سوالات اٹھتے ہیں۔ درحقیقت اس حوالے سے ادارے کے اندر سے بھی تنقید ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: پنجاب کے ضمنی انتخابات: جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا؟

جسٹس مقبول باقر سب سے زیادہ آزاد اور منصفانہ سوچ رکھنے والے ججوں میں سے ایک کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ رواں سال اپریل میں اپنی الوداعی تقریب میں ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ ججوں کو ان کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ خیالات کی وجہ سے حساس مقدمات کی سماعت سے الگ کردیا جاتا ہے۔ اس کا ججوں کی غیر جانبداری پر منفی اثر پڑتا ہے جبکہ عدلیہ کی آزادی اور ساکھ کے بارے میں عوام کے تاثر کو بھی داغدار کرتا ہے‘۔

جسٹس باقر وہ واحد جج نہیں تھے جنہوں نے سینیئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ مارچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا جو کہ قومی میڈیا میں بھی رپورٹ کیا گیا تھا۔ اس خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور دائرہ کار کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ کی تشکیل پر سوالات اٹھائے تھے۔

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں ان کا کہنا تھا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل میں سینیئر ترین جج سے مشاورت نہیں کی جا رہی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سینیارٹی لسٹ میں چوتھے، 8ویں اور 13ویں نمبر پر موجود جج بینچ کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر اس وجہ سے پریشان کن ہے کیونکہ اس سے کچھ ایسی بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن سے گریز کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’عدالتِ عظمیٰ خود بھی بارہا اس کہاوت کو دہرا چکی ہے کہ انصاف ناصرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہیے‘۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جو سب سے زیادہ راست باز اور صاف گو ججوں میں سے ایک ہیں، نے عدالتی طریقہ کار پر اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے بعض سخت فیصلے اسٹیبلشمنٹ میں ناراضگی کا باعث بنے اور شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان کی حکومت نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔

لیکن ان کو ہٹانے کی کوشش ناکام ہوگئی کیونکہ بار اور بینچ ان کے ساتھ کھڑی تھی۔ اہم آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر ان کی تنقید نے اعلیٰ عدلیہ کے طریقہ کار میں خامیوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ان خدشات کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔

عدالتی عملداری کو مضبوط کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی غیر جانبداری کے بارے میں پیدا ہونے والے خدشات کو دُور کرنا ضروری ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کے جوڈیشل ایکٹیوازم نے عدلیہ کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

مزید پڑھیے: معاملہ شجاعت، زرداری اور پرویز الٰہی کا: کب اور کیا کچھ ہوا؟

ان کے کچھ مقبول عدالتی اقدامات نے انتظامیہ اور مقننہ کے دائرہ کار میں مداخلت کی جس سے ملک میں جمہوری عمل متاثر ہوا۔ عدالتی مداخلت نے انتظامیہ کو جکڑ دیا جس سے منتخب حکومتوں کے لیے کام کرنا مشکل ہوگیا۔ اس نے ریاست کے اہم ستونوں کے درمیان طاقت کی تقسیم میں عدم توازن کو بھی وسیع کیا۔ یہ ضروری ہے کہ اختیارات اور صوابدید کو معقول اور منصفانہ طریقے سے استعمال کیا جائے تاکہ نظام کو آسانی سے کام کرنے دیا جائے۔

درحقیقت یہ دیگر ریاستی اداروں کی طرح عدلیہ کے لیے بھی آزمائش کی گھڑی ہے، خاص طور پر جب ملک میں سیاسی حالات بگر رہے ہیں۔ عدلیہ کو اس دباؤ کا مقابلہ کرنا چاہیے جس کی بنیاد سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ دباؤ کے سامنے جھکنے کا کوئی بھی تصور ملک میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری عمل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہماری سیاسی قیادت عدلیہ کو سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹے۔ انہیں سیاسی معاملات کے حل کے لیے عدالتِ عظمیٰ کی جانب دیکھنے کے بجائے ان معاملات کو منتخب فورمز پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


یہ مضمون 27 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں