چیف جسٹس غیر جمہوری عمل کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے چلے گئے، جسٹس طارق مسعود

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2022
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس گزشتہ روز ہوا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس گزشتہ روز ہوا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود نے کمیشن کے اجلاس کے حوالے سے کہا ہے کہ چیف جسٹس عمرعطابندیال غیرمعمولی اور غیرجمہوری عمل کرتے ہوئے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال اور جوڈیشل کونسل کے اراکین کو لکھے گئے خط میں جسٹس طارق مسعود نے لکھا کہ 'آج اخبار کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تعلقات عامہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے'۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا خط

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ اس میں 'اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا اس کے بالکل برعکس بیانیہ دیا گیا'۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ 'گزشتہ روز جب اجلاس شروع ہوا تو معزز چیئرمین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے نامزد ججوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور اس کے بعد جسٹس سرمد جلال عثمانی کو درخواست دی گئی'۔

انہوں نے کہا کہ 'سابق جج اور رکن کمیشن نے چار نامزدگیوں کی حمایت کی اور جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی نامزدگی مسترد کردی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اعجازالاحسن نے معزز چیف جسٹس کے نامزد ججوں کی سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی کی مکمل حمایت کی'۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ 'میری باری پر میں نے نامزد ججوں کا نظرانداز کیے گئے سینئر ججوں سے تقابلی جائزہ کرتے ہوئے سینیارٹی کے اصول پر بحث کی'۔

انہوں نے لکھا کہ 'میں نے جسٹس اطہر من اللہ کی بھی تجویز دی، جو تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس میں سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں اور کہا کہ ان کی ساکھ اور صلاحیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے سندھ ہائی کورٹ کے نامزد تین ججوں اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کی منظوری نہیں دی اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی نامزدگی مؤخر کرنے کی درخواست کی'۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ 'وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے رکن نے میری تجاویز سے اتفاق کیا اور سندھ ہائی کورٹ کے 3 ججوں اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی نامزدگی نامنظور کی'۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

انہوں نے لکھا کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی میرے ساتھ اتفاق کیا اور جب وہ نامنظوری کے لیے وجوہات بیان کررہے تھے ، معاملہ واضح ہوگیا تھا کہ کمیشن کے 5 اراکین نے 4 ججوں کی نامزدگی منظور نہیں کی'۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ 'جب بحث کر رہے تھے تو غیرمعمولی، غیرجمہوری اور کمیشن کا فیصلہ لکھوائے بغیر اور اجلاس باقاعدہ خاتم کیے بغیر معزز چیف جسٹس اچانک اٹھ کر چلے گئے اور جسٹس اعجازالاحسن نے ان کی پیروی کی اور اجلاس مؤخر کرنے کا بتائے بغیر کمرے سے چلے گئے'۔

انہوں نے لکھا کہ 'پی آر او کا اعلامیہ حقائق کے برخلاف ہے، جیسا کہ تقریباً تین گھنٹوں پر محیط اجلاس کے دوران کسی ایک نے اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز نہیں دی تھی'۔

خط میں انہوں نے لکھا کہ 'جیسا اوپر کہا گیا ہے کہ اجلاس اچانک ختم کیا گیا جب یہ واضح تھا کہ 9 رکنی کمیشن کی جانب سے نامزدگی 4 کے مقابلے میں 5 کی اکثریت سے مسترد کردی گئی تھی اور اعلامیے میں غلط بتایا گیا کہ 4 ارکان نے اجلاس مؤخر کرنے کی درخواست کی'۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ 'اجلاس کے اچانک خاتمے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کے چیئرمین اور مجھ سمیت تمام اراکین کو خط لکھا اور اس کی نقل قائم مقام سیکریٹری کو بھیجی، جس میں جو واقع ہوا تھا اس کو درست بیان کیا، میں نے یہ خط لکھنے سے پہلے ان سے پوچھا کہ ان کا پیغام جانے کے بعد چیئرمین یا کسی رکن کی جانب سے تردید آئی ہے تو انہوں نے آگاہ کیا کہ ایسا نہیں ہوا، جس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا، پی آر او نہ تو کمیشن کا رکن ہے اور نہ ہی وہ کمیشن کے سیکریٹری ہیں'۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نامزد 5 ججوں کی تعیناتی کثرت رائے سے مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ عدلیہ میں سینیارٹی کے خلاف تقرریاں نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے، صدر سپریم کورٹ بار

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جہاں چیف جسٹس کے نامزد کسی بھی جج کو سپریم کورٹ لانے کی منظوری نہ ہو سکی۔

جوڈیشل کمیشن نے زیر غور تمام ناموں کو 4 کے مقابلے میں 5 کی کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور نمائندہ بار اختر حسین نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے حق میں ووٹ دیا۔

اجلاس میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اظہر رضوی، جسٹس شفیع صدیق اور جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کے ناموں پر غور کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس کے نامزد ججوں کے خلاف 5 ووٹ آنے پر اجلاس کچھ کہے بغیر ختم کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کے دیگر اراکین کو خط لکھ کر یاد دلایا تھا کہ کس طرح انہوں نے اور دیگر 4 اراکین نے سندھ ہائی کورٹ کے 3 اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جونیئر جج کے نام سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے رد کیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط میں کہا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اچانک اجلاس چھوڑ کر چلے گئے، جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن بھی چلے گئے۔

خط میں لکھا گیا تھا کہ آئین متوقع تقرریوں کی اجازت نہیں دیتا، چیئرمین جوڈیشل کمیشن نے اجلاس میں لیے گئے فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، لہذا اب یہ قائم مقام سیکریٹری کی ذمہ داری تھی کہ وہ جوڈیشل کمیشن پاکستان کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے منٹس تیار کریں اور امید کی جاتی ہے کہ منٹس ان تمام واقعات کی درست عکاسی کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں