سیاستدانوں سے حساب مانگا جاتا ہے، مارشل لا لگانے والوں سے سوال نہیں کیا جاتا، خورشید شاہ

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2022
خورشید شاہ نے عمران خان سے کہا کہ وہ الزامات کے خلاف عدالت جائیں — فائل/فوٹو: ڈان نیوز
خورشید شاہ نے عمران خان سے کہا کہ وہ الزامات کے خلاف عدالت جائیں — فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ملک کے خراب حالات کا حساب سیاستدانوں سے مانگا جارہا ہے لیکن ان سے کوئی سوال نہیں کیا جارہا ہے جنہوں نے ملک میں 4 بار مارشل لا لگایا۔

انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر سیاستدانوں سے تو سوالات کیے جارہے ہیں کہ ملک کے ایسے حالات کیوں ہیں، اور سیاستدانوں سے ان کے 35 سالوں کا تو حساب مانگا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن ان سے کوئی سوال نہیں کیا جارہا ہے جنہوں نے 4 بار ملک میں مارشل لا لگایا، جن کے دور میں ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مارشل لا کے دور میں ہی ملک دہشت گردی اور طالبانائزیشن کا شکار ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ گل کے الزامات پر عمران خان پارٹی قیادت سے مستعفی ہوکر چینلج کریں، خورشید شاہ

سکھر آئی بی اے میں اساتذہ میں آفر آرڈر تقسیم کرنےکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ملک میں صرف 13 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جبکہ 127 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کا سالانہ 8 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 79-1978 میں ملک میں 70 فیصد بجلی ہائیڈرل کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی لیکن افسوس ہے کہ آج ملک میں 75 فیصد بجلی کا انحصار تھرمل جبکہ صرف 25 فیصد بجلی کا انحصار پن بجلی پر ہے۔

'برا سیاستدان بھی مارشل لا سے ایک کروڑ بار اچھا ہے'

خورشید شاہ نے کہا کہ ہمارے 3 دریا 1962 میں بھارت کو بیچے گئے، عوام سوشل میڈیا پر مارشل لا لگانے والوں سے سوال کریں کہ کیوں ڈیم نہیں بنائے گئے، ہم سے سوال کریں ہم سیاستدان ہیں اور ایک برا سیاستدان بھی مارشل لا سے ایک کروڑ بار اچھا ہے کیونکہ وہ قوم کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: خورشید شاہ کی عدلیہ کی سول معاملات میں مداخلت پر تنقید

ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ اور کرپشن کرنے والا سیاستدان نہیں ہوسکتا، ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میڈیا پر بھی پسند کی شادی کرنے پر تو بات کی جاتی ہے لیکن اصل ایشوز پر بات نہیں کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام صرف نعروں پر نہ جائیں، بتائیں کیا ان کو ایک کروڑ نوکریاں ملیں، 50 لاکھ گھر ملے یا سوشل پروگراموں میں ان کو شامل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں میں صرف یہ خلفشار بھرا گیا ہے کہ سیاستدان ان کے ووٹ سے صرف عیاشی کرتے ہیں، میں نے سکھر کو ایجوکیشن سٹی بنا دیا ہے، 5 یونیورسٹیاں علاقے کو دی ہیں، سکھر میں 3 ماہ کے اندر کامسیٹ یونیورسٹی بننے جارہی ہے۔

خورشید شاہ نے بتایا کہ سکھر میں آئی ٹی ٹاور بنا رہے ہیں جہاں 3 ہزار نوجوان روزگار حاصل کرسکیں گے، عوام کو صحت کی فراہمی کے لیے قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) اور انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) اسپتال بنائے ہیں جبکہ جلد کینسر کے ہسپتال کا افتتاح کرنے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پانی کی قلت: سندھ کو ’آفت زدہ‘ صوبہ قرار دینے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اپنا راستہ خود بناتی ہے، تعلیم انسان کو وژن اور سوچ دیتی ہے، ہمیں معاشرے کو پڑھی لکھی ماں دینا ہے کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں ہی بہتر معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، اس کے لیے ہمیں اپنی بچیوں کو تعلیم دلانا ہوگی۔

واضح رہے کہ سیاسی و معاشی غیر یقینی کی صورتحال کے پیش نظر ملک بھر میں اس پر بہت زیادہ بات کی جارہی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت متعدد رہنماؤں نے کہا ہے کہ ملک کی صورتحال سری لنکا جیسی ہوسکتی ہے۔

اپریل کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں اسلام آباد میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں 28 فیصد یا 51 روپے سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔

7 اپریل (جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے سبکدوش کیا گیا تھا) اور 22 جولائی کے درمیانی عرصے میں ملک کے تجارتی خسارے، بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے باعث روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 21.3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے جبکہ پیٹرولیم درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) انٹر بینک ریٹ سے کہیں زیادہ ریٹ پر کھولی جارہی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ہم سری لنکا جیسی صورتحال سے زیادہ دور نہیں ہیں اور اس خوفناک منظر نامے سے بچنے کے لیے ہمیں اہم بنیادی فیصلوں کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب ڈان کی رپورٹ میں مفتاح اسمٰعیل نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے نہ صرف معاشی طور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ ایک اچھی معیشت دینے کا بھی سوچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ساڑھے 17 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا جس کی وجہ سے ہم یہاں پہنچے، ہم نے عزم کیا ہے کہ ہم ایک آدھ سال میں اسے سرپلس میں بدلنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے فی الفور درآمد کم کرنے کی کوشش کی جس میں ہم کامیاب رہے اور اب برآمدات بڑھانے کی کوششیں کریں گے لیکن دیوالیہ ہونے کا بڑا خطرہ دور ہوگیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Saleem Mir MD Aug 01, 2022 07:20am
I raely agree with his view point but oaths issue he is100% right. Bravo!!