بنگلہ دیش: توانائی بحران کے سبب بجلی کی فراہمی متاثر

02 اگست 2022
جون سے ملک میں بار بار بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی واپسی دیکھی گئی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
جون سے ملک میں بار بار بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی واپسی دیکھی گئی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

بنگلہ دیش توانائی کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافے کے درمیان مہنگی اور ناکافی قدرتی گیس کی درآمد کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک شہری 29 سالہ روبی الاسلام نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دو مہینوں سے ہم بجلی کی ایسی بندش کا سامنا کررہے ہیں جو ہم نے چند برسوں میں کبھی نہیں دیکھی۔

جنوبی ایشیائی ملک بجلی کی 97 فیصد شرح پر فخر کرتا تھا یعنی اس کی تقریباً تمام آبادی کو بجلی تک رسائی حاصل ہے اور اس نے اپنی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو تقریباً 15 ہزار میگاواٹ کی زیادہ سے زیادہ طلب کے مقابلے میں 25 ہزار 700 میگاواٹ تک بڑھا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے ساڑھے 4 ارب ڈالر کی مدد مانگ لی

تاہم جون سے ملک میں بار بار بجلی کی بندش، یا 'لوڈ شیڈنگ' کی واپسی دیکھی گئی ہے، کیونکہ حکومت ایندھن کی بڑھتی ہوئی لاگت کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

بجلی، توانائی اور معدنی وسائل کے وزیر مملکت نصر الحامد نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع کی وجہ سے عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بنگلہ دیش کو گیس کی سپلائی میں کمی کا سامنا ہے جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بحران کی جڑیں یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں تیل اور گیس پر پڑنے والے دباؤ کا سے پہلے تک پھیلی ہوئی ہیں۔

امریکا میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے توانائی کی اقتصادیات اور مالیاتی تجزیہ کے ایک محقق سائمن نکولس نے کہا کہ بنگلہ دیش کا پاور سیکٹر تیزی سے فوسل فیول کی درآمدات پر انحصار کر رہا ہے، جس میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) بھی شامل ہے جو کہ ایک 'انتہائی غیر مستحکم شے' ہے جو غریب درآمد کرنے والے ممالک کے لیے بہت مہنگی ہونے کا خطرہ ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: شپنگ کنٹینرز ڈپو میں آتشزدگی، دھماکے سے 38 افراد ہلاک، 300 زخمی

بنگلہ دیش کی قدرتی گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کا حصہ تقریباً 60 فیصد ہے، اس گیس کا ایک چوتھائی درآمد کیا جاتا ہے۔

ماہرین نے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لیے اندرون ملک گیس کی پیداوار میں مزید تلاش اور توسیع پر زور دیا ہے۔

بنگلہ دیش پاور ڈیولپمنٹ بورڈ (بی پی ڈی) کو نجی شعبے میں آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پی) کے لیے مہنگے تعاون کے ذریعے پیدا کی گئی زیادہ صلاحیت کی وجہ سے مالی دباؤ کا سامنا ہے۔

سائمن نکولس نے کہا کہ مالی سال 21-2020 میں آئی پی پیز سے خریدی گئی بجلی کی قیمت پہلی بار پی ڈی بی کے کل آپریٹنگ اخراجات کے نصف سے زیادہ ہوگئی ہے۔

رواں سال حکومت نے آئی پی پیز کو ایک کھرب 32 ارب ٹکا ($ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر) کی صلاحیت کی ادائیگی بھی کی اور سرکاری پاور یوٹیلیٹیز کو سبسڈی کی مساوی رقم ادا کی۔

حکومت نے دو ہفتے قبل کفایت شعاری کے اقدامات شروع کیے تھے جن میں شیڈول لوڈ شیڈنگ، ایئر کنڈیشننگ کے استعمال پر قابو اور ایندھن کی درآمد پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے کام کے اوقات میں کمی شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش، بھارت میں بارش اور سیلاب سے 41افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر

ڈھاکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رضوان رحمٰن نے کہا کہ بجلی کی بندش اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے کاروباری لاگت بڑھے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بجلی اور دیگر توانائی بشمول ڈیزل اور گیس، توانائی سے متعلق اہم صنعتوں، خاص طور پر ٹیکسٹائل، سیمنٹ، اسٹیل، چمڑے اور پلاسٹک کی مصنوعات میں پیداواری لاگت کا 15-20 فیصد بنتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2019 اور 2020 دونوں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جبکہ حال ہی میں گیس کے نرخوں میں تقریباً 23 فیصد اضافہ ہوا ہے - جس کے نتیجے میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں