پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، قانونی نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟

اپ ڈیٹ 02 اگست 2022
فیصلے کے نکات کے مطابق پی ٹی آئی نے 8 اکاؤنٹس کی ملکیت ظاہر کی اور 13 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
فیصلے کے نکات کے مطابق پی ٹی آئی نے 8 اکاؤنٹس کی ملکیت ظاہر کی اور 13 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف 2014 سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے پی ٹی آئی کے مستقبل پر پڑنے والے قانونی اثرات کے حوالے سے قانونی ماہرین نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فیصلے سے پی ٹی آئی کو آئینی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا جس کے اہم نکات کے مطابق یہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ ​​ملی، پارٹی نے عارف نقوی اور 34 غیر ملکی شہریوں سے فنڈز لیے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا

فیصلے کے نکات کے مطابق پی ٹی آئی نے 8 اکاؤنٹس کی ملکیت ظاہر کی اور 13 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھا۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کی۔

پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ یہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے فنڈز کیوں نہ ضبط کیے جائیں۔

تین رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے میں چیف الیکشن کمشنر کی جانب سےکہا گیا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست نہیں، چیلنج کریں گے، فواد چوہدری

فیصلے میں پی ٹی آئی کو امریکا، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ قرار دی گئی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں فارن فنڈنگ کی کوئی بات نہیں، علی ظفر

فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مخالف سیاسی جماعتوں کا پی ٹی آئی پر فارن فنڈنگ لینے کا الزام آج کے فیصلے سے دفن ہوگیا، فارن فنڈنگ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی بیرونی ادارہ یا حکومت سیاسی پارٹی بنائے اور اس کو فنڈنگ کرے، اس طرح کی فنڈنگ حاصل کرنے پر پارٹی کالعدم قرار دی جاسکتی ہے لیکن یہ مؤقف تو ختم ہوگیا۔

علی ظفر نے مزید کہا کہ جو بھی پارٹی یا کمپنی جو فنڈز اکٹھے کرتی ہے تو فنڈز میں سے کچھ فنڈنگ ایسی ہوسکتی ہے جو کہ ممنوع ہے تو وہ فنڈنگ ضبط کرلی جاتی ہے اور یہ ایک اکاؤنٹنگ سے متعلقہ معمول کا معاملہ ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے علی ظفر نے مزید کہا کہ جیسے اگر فنڈز جمع کرنے کے لیے کوئی کرکٹ میچ کرایا جاتا ہے، کچھ اس میں سے جمع کرکے ایک پارٹی کو دے دیے جاتے ہیں تو پارٹی کو پتا نہیں چلتا کہ کس نے فنڈز دیے ہیں، یہ تو صرف فنڈز جمع کرنے والا جانتا ہے، تو اسی طرح کی کچھ ٹرانزیکشنز کو الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ کیونکہ وہ فنڈز غیر ملکیوں نے دیے ہیں اس لیے وہ ضبط کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کچھ بلاواسطہ اکاؤنٹس کو بھی الیکشن کمیشن نے غلط طریقے سے ضبط کرلیا ہے تو اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان ایک بار پھر 'سرٹیفائیڈ جھوٹے' ثابت ہوگئے، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ کوئی کمپنی یا پارٹی کا سربراہ اکاؤنٹس کے معاملات میں اپنے ماہرین پر انحصار کرتا ہے اور ان کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات سے متعلق سرٹیفکیٹ فراہم کرتا ہے اور اس طرح کے سرٹیفکیٹ وہ پوزیشن نہیں ہوتی جو حلف نامے کی ہوتی ہے اور اس معاملے میں کوئی سزا نہیں ہوتی بلکہ اکاؤنٹس کو ضبط کیا جاتا ہے اور ان کی تصحیح کی جاتی ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ نواز شریف کے حلف میں اور اس کیس میں لیگل اور فکچوئل بڑا فرق ہے، بیان حلفی مختلف ہے، سربراہ خود اکاؤنٹس کو دیکھے اور بیان حلفی دے، سرٹیفکیٹ میں پروفیشنلز پر ریلائی کیا جاتا ہے، سرٹیفکیٹ کے معاملے پر آئین کا آرٹیکل 62 اور63 لاگو نہیں ہوتا، یہ اکاؤنٹس کا مسئلہ ہے کوئی بھی بنائے کچھ غلطیاں ہوں گی جو بعد میں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔

فیصلے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، عرفان قادر

معروف قانون دان عرفان قادر نے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ فیصلے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر قوانین میں ترمیم کرنی چاہیے، کیونکہ کچھ قوانین میں ترمیم کیے بغیر ملک میں مستحکم حکومت نہیں بن سکتی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس اچھا موقع تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر اس طرح کے قوانین میں ترمیم کرتے لیکن عمران خان سمجھتے تھے کہ وہ تن تنہا حکومت بنا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 8 سال بعد پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایسے سخت قوانین نہیں ہونے چاہئیں جن کے ساتھ ملک چل ہی نہ سکے، ہمیں حقیقت پسندانہ قوانین کی ضرورت ہے۔

عمران خان کے خلاف کروڑوں روپے وصول کرنے کے الزامات ہیں، لطیف کھوسہ

اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جب سابق وزیراعظم نواز شریف پر تاحیات پابندی لگ سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے قابل وصول رقم کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا تو اتنی سی بات پر ان کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف لاگو کیا گیا اور ان کو نااہل قرار دیا گیا، جبکہ عمران خان کے خلاف تو کروڑوں روپے کی رقم کے معاملات ہیں۔

تصدیق ہوگئی پی ٹی آئی نے ممنوعہ رقم قبول کی، احمد بلال محبوب

پارلیمانی اور قانونی امور کے ماہر و پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ پی ٹی آئی کے لیے جتنا برا ممکن ہو سکتا تھا اتنا ہی برا آیا ہے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے تبصرے میں انہوں نے فیصلے کے تین اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ فیصلے سے تصدیق ہوگئی کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ رقم قبول کی، دوسری بات یہ ہے کہ فارن فنڈنگ بھی اس ممنوعہ رقم میں شامل تھی اور تیسری بات یہ ہے کہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کا اکاؤنٹس کی تفصیلات کے حوالے سے بیان حلفی جھوٹا ہے، اس سب سے اگلے اقدامات کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔‘

مزید پڑھیں: عمران خان کا اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر 4 اگست کو احتجاج کا اعلان

پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز کے متعلق جھوٹ بولا، وکیل سالار خان

وکیل سالار خان نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ توقع کرنا درست ہے کہ دوسری جماعتوں کی فنڈنگ کی بھی جانچ پڑتال کی جائے، اگر تمام پارٹیوں نے ممنوعہ فنڈز حاصل کیے ہیں تو اس کا مطلب ان سب نے قانون کی خلاف ورزی کی، لیکن اس سے بھی یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوگی کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز حاصل کیے اور اس کے بارے میں جھوٹ بولا۔

62 ون ایف کا مقدمہ چلانے کیلئے کئی عوامل پر غور کرنا ہوگا، وکیل احمد پنسوٹا

عمران خان کے خلاف نااہلی کی کارروائی کے ممکنہ آغاز کے حوالے سے وکیل محمد احمد پنسوٹا نے ٹوئٹ کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے کئی عوامل پر غور کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں