عدلیہ میں ’دھڑے بندی‘ سے بچنے کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قوانین میں تبدیلیوں پر زور

اپ ڈیٹ 06 اگست 2022
اختر حسین نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کے اندر پیدا ہونے والی واضح تقسیم قومی مفاد میں نہیں ہے۔ —فائل فوٹو: اے ایف پی
اختر حسین نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کے اندر پیدا ہونے والی واضح تقسیم قومی مفاد میں نہیں ہے۔ —فائل فوٹو: اے ایف پی

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے 28 جولائی کے اجلاس سے متعلق تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی نمائندگی کرنے والے ایک سینئر رکن کا خیال ہے کہ اگر یہ اجلاس 'اچانک' نہ کیا جاتا اور اس کے اختتام پر ایک باضابطہ ووٹنگ اور حتمی فیصلہ منٹس میں ریکارڈ کیا جاتا تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے سینئر رکن اختر حسین نے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو 4 صفحات پر مشتمل ایک خط میں لکھا کہ ہر صورت میں یہ ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کا اختتام باضابطہ ووٹنگ کے ساتھ کیا جائے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ کمیشن کے ایک یا زیادہ ارکان اپنے ساتھیوں کی بات سن کر اپنا ارادہ بدل لیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل فار پاکستان اشتر اوصاف اور جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے متعلق ایک ہفتے میں چیف جسٹس بندیال کو لکھا گیا یہ پانچواں خط ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کے اندر پیدا ہونے والی شدید اور واضح تقسیم قومی مفاد میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کی تعیناتی پر چیف جسٹس کی جلد بازی سوالیہ نشان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس تقسیم کا الزام کئی عوامل کو ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن اس کے حل کی سب سے پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری پاکستان کی قانونی برادری کے سربراہ کے طور پر چیف جسٹس پر آتی ہے۔

اختر حسین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی دھڑے بندی سے بچنے کا واحد حل جوڈیشل کمیشن کے قوانین میں ترمیم کرنا اور ججوں کی نامزدگی اور تقررکے لیے زیادہ معروضی، شفاف اور قابل پیمائش معیار اور طریقہ کار وضع کرنا ہے۔

سینئر وکیل نے سفارش کی کہ کمیشن کی قانون ساز کمیٹی کو ماضی کے طرز عمل کے مطابق ایک سینئر جج کی سربراہی میں فعال کیا جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے جاننے کا واضح مینڈیٹ ہو اور اس کے بعد چار ہفتوں میں کمیشن کی منظوری کے لیے تعیناتیوں کے قوانین کے مسودے اور معیارات وضع کیے جائیں۔

خط میں یاد دلایا گیا کہ کمیشن کے گزشتہ اور خاص طور پر آخری اجلاس میں کمیشن کے ارکان کی اکثریت کا جوڈیشل کمیشن کے قوانین میں ترمیم پر واضح اتفاق رائے پایا گیا، سنیارٹی کے اصول کی پاسداری کی تائید میں واضح اکثریت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

اختر حسین نے کہا کہ جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک صرف چیف جسٹس کی بجائے کمیشن کے تمام اراکین کو تعیناتیوں کے لیے نامزد افراد کو تجویز کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

انہوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کے مشاہدات پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی بعض بحثوں سے متعلقہ ججوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔

انہوں نے استدلال کیا کہ قوانین میں نرمی کرتے ہوئے آڈیو ریکارڈنگ جاری کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کمیشن کے تمام اراکین سے مشورہ کرنا زیادہ ضروری تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے خطوط لکھنا اور پریس ریلیز جاری کرنا اور جوڈیشل کمیشن کی آڈیو کارروائی کی ضرورت ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا خط

انہوں نے مزید کہا کہ اگر 28 جولائی کا اجلاس اچانک ختم نہ کیا گیا ہوتا اور میٹنگ کے اختتام پر منٹس میں باقاعدہ ووٹنگ اور حتمی فیصلہ درج کر لیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔

اختر حسین نے کہا کہ عدلیہ، بار اور عوام کے اندر ظاہر ہونے والی بے چینی کے پیش نظر وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صوابدید میں کم از کم کچھ حدود و قیود کو ضرور قبول کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'جس دن سے میں کمیشن کا رکن بنا ہوں، اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ ہماری کارروائیاں اور فیصلے سوچے سمجھے اور اجتماعی مشق ہونے چاہئیں' ۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں اپنے آپ کو کیمپوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کمیشن کے فیصلوں کو اندرونی انتخابات کے طور پر دیکھنا چاہیے، ہم اکثریت میں ہوں تو ہمیں اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے معاملات میں جلدبازی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اقلیت میں ہونے کی صورت میں غیر ضروری طور پر ملتوی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں