امریکی وفد کا دورہ تائیوان، جزیرے کے اطراف چین کی تازہ فوجی مشقیں

اپ ڈیٹ 15 اگست 2022
واشنگٹن نے چین پر کشیدگی میں اضافہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے—فوٹو:رائٹرز
واشنگٹن نے چین پر کشیدگی میں اضافہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے—فوٹو:رائٹرز

چین نے تائیوان کے اطراف بڑے پیمانے پر مزید فوجی مشقیں شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے بعد امریکی قانون سازوں کے ایک وفد کے دورہ تائیوان اور قیادت سے ملاقات پر دونوں ممالک کی درمیان تنازع مزید شدت اختیار کرجانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ دو روزہ غیراعلانیہ دورہ بیجنگ کی جانب سے خود مختار جمہوری تائیوان کے اطراف سمندر، فضا میں جنگی جہاز، میزائل اور جیٹ طیارے بھیجے جانے کے بعد کیا گیا، جس کے بارے میں چین کا مؤقف ہے یہ خطہ اس کا حصہ ہے اور ایک دن ضم کردیا جائے گا۔

تائیوان میں قائم واشنگٹن کے ڈی فیکٹو سفارت خانہ کے مطابق میساچوسٹس سے منتخب سینیٹر ایڈ مارکی کی سربراہی میں 5 رکنی کانگریسی وفد نے صدر تسائی انگ وین سے ملاقات کی۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ دورہ امریکا اور تائیوان دونوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے، دونوں ممالک کو وسیع دائرہ کار پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا'۔

یہ بھی پڑھیں : چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا، بائیڈن

دوسری جانب بیجنگ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ چین نے جزیرہ تائیوان کے ارد گرد سمندر اور فضائی حدود میں جنگی مشقیں شروع کیں۔

چینی فوج کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ترجمان شی یی نے قومی خومختاری کا دفاع کرنے کا عزم دہراتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ 'یہ امریکا اور تائیوان کی جانب سے کی جانے والی سیاسی چالیں اور تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے خلاف اقدامات ہیں'۔

تائیوان نے الزام عائد کیا ہے کہ چین نے نینسی پلوسی کے دورے کو بہانہ بنا کر مشقیں شروع کیں جو جزیرے پر حملے کی تیاری ہے۔

عالمی رہنماؤں کی جانب سے تائیوان کو ریاست تسلیم کرنے کا کوئی بھی اشارہ چین کو مشتعل کردے گا—فوٹو:رائٹرز
عالمی رہنماؤں کی جانب سے تائیوان کو ریاست تسلیم کرنے کا کوئی بھی اشارہ چین کو مشتعل کردے گا—فوٹو:رائٹرز

واضح رہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے تائیوان پر حکومت کبھی نہیں کی لیکن پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ اس جزیرے پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی اور اس کے ساتھ ایک خودمختار قومی ریاست کے طور پر حکومت قائم کرے گی۔

مزید پڑھیں: چین-تائیوان تنازع: چین کے آگے نہیں جھکیں گے، تائیوانی صدر

امریکی وفد کے دورے کے جواب میں، بیجنگ نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ 'امریکا ایسے اقدامات سے گریز کرے جو چین مخالف ہیں اور ون چائنا اصول مسخ نہ کرے تاکہ چین-امریکا تعلقات اور تائیوان میں امن و استحکام کو مزید نقصان نہ پہنچے'۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے بریفنگ میں کہا کہ چین اپنی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کرے گا۔

ریڈ لائن

دہائیوں سے جاری دھمکی کا پچھلے ہفتے شائع ہونے والے وائٹ پیپر میں اعادہ کیا گیا تھا، جب چین کے تائیوان سے متعلق امور کے دفتر نے کہا تھا کہ اپنے پڑوسی کے خلاف 'طاقت کا استعمال خارج ازامکان نہیں ہوگا' اور 'تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا اختیار' بھی رکھتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ: 'ہم علیحدگی پسند عناصر یا بیرونی قوتوں کی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کے لیے سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے'۔

تائی پے بیجنگ کے ساتھ تمام معاملات پر ڈٹا ہوا ہے اور وزیر خارجہ جوزف وو نے وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ ان کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جزیرہ چین کی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : چینی صدر کا تائیوان میں صورتحال ’سنگین اور پیچیدہ‘ ہونے کا انتباہ

جوزف وو نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ چین یہ حکم نہیں دے سکتا کہ 'تائیوان کیسے دوست بنائیں، کیسے حمایت حاصل کرے، ثابت قدم رہے اور آزادی کی علامت کے طور چمکے'۔

تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی ) کے قانون ساز لو چیہ چینگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'ان کا دورہ ایک مرتبہ پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین دوسرے ممالک کے سیاست دانوں کو تائیوان کا دورہ کرنے کا حکم دے سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت کر سکتا ہے'۔

نینسی پلوسی اپنے دورے کے حوالے سے قائم رہیں لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی فوج ان کے ساتھی ڈیموکریٹ، جو نائب صدر کے بعد صدارت کے لیے دوسرے نمبر پر ہیں، کے اس دورے کی مخالفت کی تھی۔

کانگریس آئینی طور پر امریکی حکومت کی ایک برابر شاخ ہے کہ قانون ساز اپنی مرضی کے مطابق سفر کر سکتے ہیں اور تائیوان کو منقسم واشنگٹن میں بلاتفریق حمایت حاصل ہے۔

خیال رہے کہ امریکا نے 1979 میں اپنے سفارتی تعلقات تائی پے سے بیجنگ کی طرف منتقل کر دیا تھا لیکن یہ تائیوان کا بدستور کلیدی اتحادی ہے اور تائی پے کے ساتھ ڈی فیکٹو سفارتی تعلقات برقرار رکھا ہوا ہے۔

واشنگٹن کی سرکاری پالیسی تائیوان کی آزادی کے اعلان اور چین کی جانب سے جزیرے کی حیثیت زبردستی تبدیل کرنے کے مخالف ہے۔

تائیوان کے سینئر امریکی عہدیداروں کے دورے کئی دہائیوں سے ہوتے رہے ہیں، ایوان نمائندگان کے اسپیکر نیوٹ گنگرچ نے 1997 میں دورہ کیا تھا۔

لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں کے دور میں امریکی دوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ کے جارحانہ مؤقف کے جواب میں تائیوان نے حالیہ برسوں میں یورپ اور دیگر مغربی اتحادیوں کے وفود کی سطح پر دورے بھی کیے۔

تبصرے (0) بند ہیں