ایم کیو ایم نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو امتیازی قرار دے دیا

16 اگست 2022
ایم کیو ایم نے موقف اپنایا کہ جن علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ مقبول ہے وہاں ووٹرز کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی گئی— فائل فوٹو: پی پی آئی
ایم کیو ایم نے موقف اپنایا کہ جن علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ مقبول ہے وہاں ووٹرز کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی گئی— فائل فوٹو: پی پی آئی

متحدہ قومی موومنٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی سیکشن 10(1) امتیازی ہے کیونکہ اس نے پارٹی کو کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں کی خدمت کے لیے اپنا میئر رکھنے کے موقع سے محروم کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی، بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم نے پیر کو سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 10(1) کے ذریعے سپریم کورٹ کی 2014 کی ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 140-اے، 218 اور 222 کے تحت مقامی حکومتوں کی حلقہ بندیاں کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور وفاقی، سندھ اور پنجاب حکومتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ قانون سازی کریں تاکہ الیکشن کمیشن کو مقامی حکومتوں کی حلقہ بندیوں کے قابل بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: نئے بلدیاتی قانون کےخلاف جماعت اسلامی کی سندھ ہائیکورٹ میں درخواست

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور دیگر کی جانب سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

وکیل نے کہا کہ جن علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی مقبول ہے وہاں ووٹرز کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی گئی، میئر کے انتخاب کے لیے درخواست گزار کے ایک بنیادی حلقے کا ووٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے تین بنیادی حلقوں کے ووٹوں کے برابر کر دیا گیا ہے۔

کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کے مختلف اضلاع کا ایک جامع چارٹ پیش کرتے ہوئے وکیل نے کہا کہ مختلف یونین کونسلز کی آبادی میں فرق جائز قرار دیے جانے کے دائرے سے باہر ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 20 (3 اور 4) کے تحت 10 فیصد اتار چڑھاؤ کو قبول کیا گیا تھا لیکن اس کی بھی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے وکیل نے کراچی کے ضلع غربی کی مثال دی جہاں 6لاکھ 97 ہزار 233 افراد کی آبادی کے لیے اورنگی ٹاؤن میں آٹھ یوسی، 4لاکھ 17ہزار 460 کی آبادی کے لیے مومن آباد کی 9 جبکہ منگھوپیر کی 9لاکھ 9ہزار 340 افراد کی آبادی کے لیے 16 یوسیز بنائی گئی ہیں۔

وکیل نے بتایا کہ اورنگی ٹاؤن کی اوسط آبادی 82ہزار فی یوسی، مومن آباد میں 50ہزار فی یوسی اور منگھوپیر میں 55ہزار فی یوسی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت بااختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پابند ہے، سپریم کورٹ

اس طرح جہاں درخواست گزار (ایم کیو ایم) مقبول ہیں وہاں 70ہزار سے 90ہزار کی آبادی پر حلقے بنائے گئے ہیں جبکہ جہاں درخواست گزار کا ووٹ بینک کم ہے وہاں 30ہزار یا 40ہزار آبادی والے حلقے بنائے گئے ہیں۔

سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 10(1) کے ذریعے وکیل نے کہا کہ حکومت کو بنیادی حلقہ بندیوں کا تعین کرنے یا بنانے کا اختیار دینے کے ساتھ ساتھ یونین کونسلز اور یونین کمیٹیاں بنانے کا بھی اختیار دیا گیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ یوسیز کے چیئرمینوں نے میونسپل/میٹرو پولیٹن کارپوریشنوں کے میئر یا سربراہ کا انتخاب کرنے کے لیے الیکٹورل کالج تشکیل دیا۔

وکیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غلطی کا یہ شاندار مقدمہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 10(1) کے ذریعے بنایا گیا جو 10 فیصد کی آبادی کے لیے دی گئی اجازت کہیں زیادہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے لیکن حد بندی کمیٹیوں کی جانب سے ایسا بڑے پیمانے پر کیا گیا۔

کیس کی سماعت (آج) منگل کو دوبارہ ہو گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 16, 2022 09:51pm
ووٹر لسٹوں میں بھی ہیرا پھیری کی گئی ہے ایک ہی گھر کے مکینوں کو الگ الگ یوسی اور وارڈ میں میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔