پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس:شاہ فرمان ایف آئی اے میں پیش

اپ ڈیٹ 19 اگست 2022
شاہ فرمان نے کہا اگر سیاستدان اداروں کااحترام نہیں کریں گےتوکرپشن کیسےختم ہوگی — فوٹو: اے پی پی/ٹویٹر
شاہ فرمان نے کہا اگر سیاستدان اداروں کااحترام نہیں کریں گےتوکرپشن کیسےختم ہوگی — فوٹو: اے پی پی/ٹویٹر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سابق گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے روبرو پیش ہوئے جہاں ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری کر رہی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے شاہ فرمان کو 23 سوالات پر مبنی سوالنامہ دیتے ہوئے 22 اگست تک جوابات طلب کر لیے ہیں۔

سوالات زیادہ تر نجی بینک سے متعلق ہیں جس کا اکاؤنٹ 23 جنوری 2010 کو پشاور کنٹونمنٹ کے علاقے میں بینک اسلامی (سابقہ ​​کے اے ایس بی) میں پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے نام سے کھولا گیا تھا، اس بینک اکاؤنٹ کو شاہ فرمان اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر نے مشترکہ طور پر چلایا تھا۔

اسد قیصر آج سماعت میں پیش نہیں ہوئے، انہوں نے ایف آئی اے سے کہا کہ نوٹس واپس لے جب تک کہ پشاور ہائی کورٹ اس بات پر فیصلہ نہ کر لے کہ ایف آئی اے کے پاس اس کیس کی تحقیقات کا اختیار ہے بھی کہ نہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 11 اگست تک ایف آئی اے کو پی ٹی آئی کے خلاف ’کارروائی‘ کرنے سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 8 سال بعد پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ

زیر بحث بینک اکاؤنٹ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سامنے مسترد کردیا تھا، جس نے بعد اسے 'نامعلوم' اکاؤنٹس کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر (کمرشل بینکنگ سرکل) پشاور نے 2 اگست کے الیکشن کمیشن کے اعلان کے تناظر میں انکوائری کا حکم دیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز ملے تھے۔

ایف آئی اے کے انکوائری افسر سب انسپکٹر عرفان اللہ نے شاہ فرمان اور اسد قیصر کو نوٹس جاری کیے اور انہیں انکوائری کے سلسلے میں پیش ہونے کو کہا۔

شاہ فرمان سے کیے گئے سوالات میں سے کچھ یہ ہیں: 'کیا آپ کا بینک اسلامی (سابق کے اے ایس بی) پشاور میں بینک اکاؤنٹ ہے؟ اکاؤنٹ کھولنے کا مقصد کیا تھا؟ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے جنرل سیکریٹری ہونے کے ناطے، مندرجہ بالا اکاؤنٹ کے کچھ حصے سے کیا آپ نے پی ٹی آئی کے لیے کوئی اور بینک اکاؤنٹس کھولے؟ بینک اکاؤنٹ کھولنے سے پہلے کیا آپ نے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹریٹ اسلام آباد سے منظوری لی تھی؟ کیا رقم مرکزی اکاؤنٹ سے مذکورہ اکاؤنٹ میں جمع ہوئی؟

مرکزی مالیاتی بورڈ کی پالیسی کے مطابق کیا آپ نے فنڈ کی وصولی اور تقسیم کے حوالے سے کوئی سالانہ بیرونی آڈٹ رپورٹ سی ایف بی کو جمع کرائی ہے؟ کیا آپ نے کبھی صوبائی الیکشن کمشنر، خیبر پختونخوا یا الکیشن کمیشن (ای سی پی) اسلام آباد میں مذکورہ اکاؤنٹ کا اعلان کیا ہے؟ اور پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے مذکورہ بینک اکاؤنٹ کا اعلان کیوں نہیں کیا۔

سابق گورنر سے سیاست میں آنے سے پہلے ان کے پیشے، سیاسی کیریئر شروع کرنے سے پہلے اور بعد میں ان کی آمدنی کے ذرائع، سالانہ ٹیکس کی ادائیگی اور انفرادی یا مشترکہ طور پر ان کے ذریعے چلائے جانے والے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق 2 لاکھ 11 ہزار روپے نکلوائے گئے اور 21 لاکھ 27 ہزار روپے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے۔

ایف آئی اے کے روبرو پیشی کے بعد شاہ فرمان نے ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وہ انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہوئے کیونکہ وہ قومی اداروں کا احترام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف کیس کو ’ممنوعہ فنڈنگ کیس‘ قرار دے دیا

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اگر سیاستدان اداروں کا احترام نہیں کریں گے تو کرپشن کیسے ختم ہوگی، انہوں نے کہا کہ وہ ایف آئی اے کے تمام سوالات کا جواب دیں گے۔

سابق گورنر نے کہا کہ زیر بحث بینک اکاؤنٹ کبھی بھی غیر ملکی فنڈز حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا اور اکبر ایس بابر، جو اس معاملے پر ای سی پی میں شکایت کر رہے تھے، اس اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے والے پہلے شخص تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی کی طرح وہ بھی ایف آئی اے انکوائری کے خلاف ہائی کورٹ جا سکتے ہیں، لیکن وہ تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اسد قیصر کی درخواست

ادھر سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، جنہیں دوپہر 2 بجے ایف آئی اے ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا تھا، وہ پیش نہیں ہوئے۔

اسد قیصر کے وکیل نے انکوائری افسر کو خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ انکوائری کی قانونی حیثیت کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے کیونکہ ایف آئی اے کے پاس اس کیس کی تحقیقات کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

خط بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے بھیجا گیا تھا جس میں انکوائری افسر سے نوٹس واپس لینے کا کہا گیا تھا۔

گوہر علی خان نے خط میں کہا کہ ان کے مؤکل نے ایف آئی اے کے 'دائرہ اختیار کے مفروضے' کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور عدالت کے ایک ڈویژن بینچ نے چھ سوالات کیے تھے کہ آیا ایف آئی اے کے پاس نوٹس لینے کا اختیار ہے یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ریاستی عہدیدار کے طور پر انکوائری افسر 31 اگست کو ہونے والی اس درخواست کے نتائج کا انتظار کرنے کا پابند تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں