الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف کیس کو ’ممنوعہ فنڈنگ کیس‘ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
انور منصور نے کہا کہ فارن فنڈڈ جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
انور منصور نے کہا کہ فارن فنڈڈ جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے پی ٹی آئی کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) عملے کو اس کے خلاف کیس فارن فنڈنگ کے بجائے ممنوعہ فنڈنگ لکھنے کی ہدایت کردی۔

مذکورہ کیس پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014 کو دائر کیا تھا جس میں پارٹی کو بیرونِ ملک سے ملنے والے فنڈز میں سنگین بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن میں سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ کاز لسٹ میں آج بھی فارن فنڈنگ لکھا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کے تمام کیسز کا ایک ساتھ فیصلہ کرنے کی استدعا

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے عملے کو ہدایت کی کہ آئندہ کیس کو فارن فنڈنگ نہ لکھا جائے، ساتھ ہی کہا کہ آپ کے مؤکل بھی میڈیا پر فارن فنڈنگ کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔

انور منصور نے کہا کہ پہلے دن سے میرا مؤقف ہے کہ کیس ممنوعہ فنڈنگ کا ہے فارن فنڈنگ نہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کا مؤقف درست ہے تب ہی ہدایات جاری کی ہیں۔

کیس میں دلائل دیتے ہوئے پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن ایکٹ نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 لاگو ہوگا، پی پی او کے تحت فارن فنڈنگ میں غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں آتی ہیں۔

انور منصور نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ کسی سے بھی فنڈز لینے پر ممانعت ہے لہٰذا سال 2017 تک کے تمام کیسز پر 2002 کے قانون کا ہی اطلاق ہوگا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کا عدالتی حکم معطل

انہوں نے کہا کہ بھارت میں بیرون ملک رہائش پذیر شہری بھی سیاسی پارٹی کو چندا نہیں دے سکتے، بھارت میں دوہری شہریت کی اجازت نہیں جبکہ پاکستان میں قانون موجود ہے۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے وکیل نے کہا کہ فارن فنڈڈ پارٹی کے حوالے سے بھی قانون واضح ہے۔

انور منصور نے کہا کہ فارن فنڈڈ جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے، اسکروٹنی کمیٹی کو تمام تفصیلات اور مؤقف سے آگاہ کیا تھا، اسکروٹنی کمیٹی صرف قانون میں درج طریقہ کار کے مطابق جانچ پڑتال کر سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے قرار دیا جو ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے اس کو ہی قبول کریں گے، ہم اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے اور مزید سماعت 20 جون تک ملتوی کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس: ای سی پی کا خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم

امکان ہے کہ ای سی پی، درخواست گزار کے وکیل کو پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل کا جواب دینے کا موقع فراہم کرے گا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فرخ حبیب نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج الیکشن کمیشن نے تسلیم کرلیا وہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس سن رہے ہیں۔

‏انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے فارن فنڈنگ کیس کہا جارہا تھا، قانون کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پارٹی پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر کی کاوشیں رائیگاں چلی گئیں، انہیں ایزی لوڈ کی سہولت فراہم کرنے والی مریم صفدر کو شدید نقصان ہوا ہے۔

اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کی تیار کردہ تہلکہ خیز رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کیے، فنڈز کو کم دکھایا اور درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپائے۔

یہ بھی پڑھیں: اسکروٹنی رپورٹ میں پی ٹی آئی کی اہم دستاویزات، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات چھپانے کا انکشاف

رپورٹ کے مطابق پارٹی نے مالی سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان چار سال کی مدت میں 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم کم ظاہر کی، سال کے حساب سے تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم کم رپورٹ کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس پر اس مدت کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی رائے کے جائزے میں رپورٹنگ کے اصولوں اور معیارات سے کسی انحراف کی نشاندہی نہیں ہوئی'۔

یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان ہے، جسے پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کرایا گیا تھا۔

رپورٹ میں پی ٹی آئی کے چار ملازمین کو ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دینے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن کہا گیا ہے کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر تھا۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی مکمل جانچ پڑتال کے لیے اسکروٹنی کمیٹی مارچ 2018 میں تشکیل دی گئی تھی لیکن اسے اپنی رپورٹ ای سی پی کو پیش کرنے میں تقریباً چار سال لگے جو دسمبر 2021 میں جمع کرائی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں