اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اراکین کی جانب سے ممکنہ توسیع کے معاہدے تک افغان طالبان کے 13 عہدیداروں کے لیے سفری پابندیوں سے استثنیٰ ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2011 کی قرارداد کے تحت 135 طالبان عہدیداروں پر پابندیاں عائد ہیں جن میں اثاثے منجمد کرنا اور سفری پابندیاں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے 13 طالبان رہنماؤں کو سفری پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا تھا تاکہ وہ بیرون ملک جا کر دوسرے ممالک کے حکام سے ملاقات کرسکیں۔

اس سے قبل جون میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 15 اراکین پر مشتمل کمیٹی نے خواتین کے حقوق کم کرنے پر طالبان کے 2 وزرائے تعلیم کو استثنیٰ کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی تعلقات شریعت کے مطابق ہوں گے: افغان طالبان

کمیٹی نے 19اگست تک دوسرے طالبان عہدیداروں کے لیے استثنیٰ کی تجدید کی تھی، اس کے علاوہ کسی رکن کی جانب سے اعتراض نہ کرنے کی صورت میں مزید ایک مہینے تک توسیع دینے کا کہا تھا۔

سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر آئرلینڈ نے اس ہفتے اعتراض کیا تھا۔

چین اور روس نے توسیع کا مطالبہ کیا جبکہ امریکا نے سفر کرنے کی اجازت والے حکام کی فہرست میں اور سفر کرنے والے مقامات میں کمی کا کہا ہے۔

سفارتی ذرائع نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ تازہ ترین تجویز یہ ہے کہ صرف 6 حکام کو سفارتی وجوہات کی بنا پر سفر کرنے کی اجازت دی جائے۔

رپورٹ کے مطابق پیر تک سلامتی کونسل کا کوئی رکن اعتراض نہیں کرتا ہے تو اس کا نفاذ تین ماہ کے لیے ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ افغان حکمران طالبان کے 13 عہدیداروں کو حاصل استثنیٰ ہفتے کی رات کو ختم ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: امریکا منجمد افغان اثاثوں کو بحال کرے، پاکستان کا مطالبہ

طالبان کے ان 13 عہدیدراوں میں نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر اور ڈپٹی وزیر خارجہ شیر محمد عباس استنکزئی بھی شامل ہیں۔

انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، جس کے سبب 2020 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

اقوام متحدہ میں چینی مشن کے ترجمان، جو اس وقت روٹیشن پالیسی کے تحت سلامتی کونسل کے صدر ہیں، نے انسانی حقوق کے سبب سفری پابندی کے مغربی مؤقف کوغیر مؤثر قرار دیا۔

ترجمان نے مزید کہنا تھا کہ استثنیٰ کی ضرورت ہمیشہ کی طرح ہے، اگر کونسل کے دیگر اراکین سفری پابندی کو دوبارہ نافذ کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے واضح طور پر کوئی سبق نہیں سیکھا۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے سال اگست میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے زیادہ لچکدار ہونے کے وعدے کیے تھے لیکن اس کے باوجود طالبان بڑی حد تک سخت حکمرانی کی طرف لوٹ گئے، جو طالبان کے پہلے دور 1996 سے 2001 تک کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا جنم سے عروج تک کا سفر

طالبان حکومت نے خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں، ان سے برقعہ پہننے کا مطالبہ کیا گیا تھا، لڑکیوں کی تعلیم کو مؤثر طریقے سے روکا اور خواتین کو افغانستان میں کام کی جگہوں سے منظم طریقے سے ہٹا دیا۔

واضح رہے کہ اب تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں