عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے، مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں، رانا ثنااللہ

اپ ڈیٹ 21 اگست 2022
رانا ثنااللہ نے کہا یہ متنازع بیان دراصل عمران خان کا بیانیہ ہے — فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنااللہ نے کہا یہ متنازع بیان دراصل عمران خان کا بیانیہ ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ کل عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے اور ان کے خلاف علیحدہ مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ کل عمران خان نے اپنی تقریر میں بہت ساری باتیں کی ہیں لیکن اس کے ایک حصے میں آپ سب سن لیں۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ کی جانب سے عمران خان کی گزشتہ روز ایف نائن اسلام آباد میں کی جانے والی تقریر کی ویڈیو چلائی گئی جس میں عمران خان نے ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لینے اور مقدمہ کرنے کی تنبیہ کی تھی۔

رانا ثنااللہ نے عمران خان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ایک خاتون جج کو نام لے کر دھمکیاں دیں اور افسرز کو کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہیے، عمران خان صاحب! آپ کو خود اس روز شرم کیوں نہیں آئی جب آپ نے ایف آئی کے بابر بخت کو تھانے میں بھیجا تھا اور وہاں اس نے آٹھ، دس مسلح لوگوں کے ہمراہ محسن بیگ پر تشدد کیا اور اس کی ویڈیو بنا کر آپ کو بھیجی گئی، وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر وہ ویڈیو دیکھتے ہوئے آپ کو شرم کیوں نہیں آئی؟

یہ بھی پڑھیں: خونی لانگ مارچ کا بیان واپس نہ لیا تو گھر سے باہر نہیں نکلنے دوں گا، رانا ثنا اللہ

انہوں نے کہا کہ کل عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، میری وزارت نے اس بارے میں رپورٹ تیار کی ہے کہ آیا ان کا یہ بیان ان کے گزشتہ دونوں بیانیوں کا تسلسل ہے اور کیا اس تقریر کو بھی اس مقدمے کا حصہ بنا کر عمران خان کو گرفتار کیا جائے یا انہیں اس مقدمے میں بطور ملزم نامزد کیا جائے یا پھر اس پر علیحدہ سے ایک مقدمہ درج کیا جائے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس رپورٹ پر ہم وزارت قانون اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے رائے لے رہے ہیں کہ عمران خان کی اس تقریر پر علیحدہ سے مقدمہ ہونا چاہیے یا پھر اس مقدمے کا حصہ بنا کر عمران خان کو نامزد کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات میں واضح کردوں کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے ان ڈراموں کے ذریعے قوم کی توجہ اپنے اصل ایجنڈے سے ہٹا سکتے ہیں تو اس میں ہم انہیں کسی طور پر بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا کہا ہے، میں منتظر ہوں کہ عمران خان لانگ مارچ کریں، ان شا اللہ 25 مئی سے زیادہ مؤثر جواب ملے گا، ہماری تیاری پوری ہے، اگر آپ نے کوئی حرکت کی تو ان شا اللہ اسی روز فیصلہ ہو جائے گا۔

'شہباز گل نے طے شدہ منصوبے، عمران خان کی ہدایت پر متنازع بیان دیا'

رانا ثنااللہ نے کہا کہ شہباز گل نے عمران خان کی ہدایت پر متنازع بیان دیا جس میں شہدا کے تقدس کو پامال کیا گیا، ان کے اہل خانہ کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بیان میں ریاست پاکستان پر ایسے الزامات بھی لگا دیے گئے جو کبھی دشمن ملک افغانستان نے بھی نہیں لگائے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ شہباز گل نے 8 اگست کو طے شدہ منصوبے کے تحت نجی چینل 'اے آر وائی نیوز' پر متنازع بیان دیا، اس کی باقاعدہ ریکارڈنگ موجود ہے کہ کس طرح چینل کے لوگ اس پروگرام کو فکس کرتے رہے کہ اتنے بجے فون آئے گا، اتنے بجے یہ سوال کیا جائے گا اور اس کے جواب میں 14 منٹ آپ نے یہ گفتگو کرنی ہے جس میں کوئی خلل نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے امن و امان کی صورتحال پیدا کی تو سختی سے نمٹا جائے گا، رانا ثنااللہ

انہوں نے کہا کہ یہ متنازع بیان دراصل عمران خان کا بیانیہ اور پی ٹی آئی کا ایجنڈا ہے، اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ ایک غیر ملکی ایجنڈا ہے جسے 8 اگست کو 'اے آر وائی' چینل پر آن ایئر کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے اس بیان میں فوج کے افسران و جوانوں میں ماتحتوں کو یہ ترغیب دی گئی اور اکسایا گیا کہ آپ اپنے کمانڈ کا حکم نہ مانیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ بہت سے سیاستدانوں نے بہت سے مواقع پر اسٹیبلمشنٹ کی سیاست میں مداخلت پر بات کی ہوگی، کسی کا نام بھی لیا ہوگا، اسٹیبلشمنٹ کے بہت سارے افسران نے ریٹائرمنٹ کے بعد اس پر کتابیں بھی لکھیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا، لیکن کسی نے بھی کبھی فوج میں کمانڈ کی حکم عدولی کی ترغیب نہیں دی۔

'پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں شہباز گل پر دوران تحویل کوئی تشدد نہیں ہوا'

رانا ثنااللہ نے کہا کہ شہباز گل کے اس بیان پر 9 اگست کو ان پر مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں گرفتار کیا گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، اس کی فوٹیج ہم بھی جاری کردیں گے لیکن وہ میڈیا کے پاس بھی موجود ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کیونکہ وہاں ان کے لیے کوئی نعرے بازی کرنے نہیں آیا تھا، مگر وہ مسکرا رہے تھے اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کوئی شکایت نہیں کی کہ ان تشدد کیا گیا ہے اور میڈیا کے سامنے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔

مزید پڑھیں: عمران خان بتائیں کیا ان کی کرپشن کی تحقیقات کرنا دیوار سے لگانا ہے، رانا ثنااللہ

انہوں نے کہا کہ 12 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ پر جانے سے پہلے شہباز گل 3 روز تک پولیس کی تحویل میں رہے، ان 3 روز کے حوالے سے میں نے اپنی پوری تسلی کی ہے، آئی جی اسلام آباد اور پولیس کے تفتیشی افسران سے بھی پوچھا اور اپنے طور بھی معلومات لیں، میں پوری ذمہ داری سے اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ شہباز گل پر پولیس حراست کے دوران کوئی تشدد ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس بات کی ضمانت دینے کو بھی تیار ہوں کہ جتنا عرصہ وہ پولیس کی تحویل میں رہے ہیں ان کو وقت پر کھانا ملتا رہا، جو انہوں نے کھانے کا مطالبہ کیا ان کو وہی دیا گیا اور ناشتہ بھی دیا گیا، تفتیش کا عمل ضرور مکمل کیا گیا لیکن اس دوران کسی قسم کے تشدد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ 12 اگست کو شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا، 17 اگست تک 6 روز پر کسی فارم پر بھی شہباز گل کی جانب سے خود پر تشدد کی کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 17 اگست کو جب ان کا دوبارہ ریمانڈ دیا گیا اور مزاحمت کے بعد اسلام آباد پولیس ان کو لے گئی تو ان کی حالت خراب ہونے لگی، لیکن کسی تشدد کی بنیاد پر ان کی صحت کی خرابی سامنے نہیں آئی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو فراہم سیکیورٹی ہی انہیں ضمانت ختم ہونے پر گرفتار کرلے گی، رانا ثنااللہ

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت کسی قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد اور ٹارچر کے سخت مخالف ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں بطور حکومت اور بطور سیاسی جماعت ہمارا یہ مؤقف ہے کہ ٹارچر انسان کی کی عزت نفس کی تذلیل ہے جس کی ضمانت پاکستان کا آئین دیتا ہے، یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، ہم کسی طور پر اس کے حق میں نہیں ہیں۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ہم خود اس تشدد کا سامنا کر چکے ہیں، ہمارے قائد نواز شریف سے لے کر ہماری جماعت کی پوری اعلیٰ قیادت سے نیچے تک ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا شکار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل نے اب تک پولیس اور عدالت کے سامنے جو بیانات دیے ہیں ان میں انہوں نے کہیں ایسی کوئی بات نہیں کی کہ ان پر جنسی تشدد ہوا ہے لیکن عمران خان نے یہ الزام بھی لگا دیا۔

’تشدد کے ڈرامے کا مقصد پی ٹی آئی کے ملک دشمن بیانیے سے توجہ ہٹانا ہے‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ پہلے ان لوگوں نے شہدا کی تذلیل کرنے کی کوشش کی جس کی پوری قوم نے یک زبان ہو کر مذمت کی، اس کے بعد انہوں نے شہباز گل کے ذریعے اپنا بیانیہ پیش کیا جس پر اس قدر ردعمل آیا کہ یہ لاجواب ہوگئے اور اس بیان کا دفاع نہیں کرسکے، اس سے دھیان ہٹانے کے لیے انہوں نے شہباز گل پر تشدد کی کہانی گھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کے اس بیانیے میں شدت پیدا کرنے کے لیے اب نئی سے نئی ایسی باتیں کی جارہی ہیں جن پر کسے جھوٹ اور فراڈ کرنے والے شخص کو بھی شرم آئے لیکن یہ لوگ نہیں کترا رہے۔

مزید پڑھیں: ہمارے ہاتھ پاؤں باندھے گئے تو عوام سے رجوع کریں گے، رانا ثنا اللہ

ان کا کہنا تھا کہ میں پوری قوم کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تشدد کا یہ سارا ڈرامہ لسبیلہ کے شہدا کے خلاف اور اے آر وائی پر دیے گئے ان کے بیانے سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں لیکن اپنے متنازع بیانیے سے توجہ ہٹانے کے لیے تشدد کے ڈرامے کے بھی ہم مخالف ہیں اور اسے ہم پوری طرح بے نقاب کریں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

انجینیر خالد Aug 21, 2022 09:37pm
رانا بھائی آپ پر کتنے عرصے سے مقدمات ہیں لیکن کون پوچھتا ہے هاهاهاها