تقریر نشر کرنے پر پابندی، عمران خان پیمرا کے زیر عتاب آنے والے چوتھے سیاسی رہنما

اپ ڈیٹ 22 اگست 2022
پیمرا نے عمران خان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے — فوٹو بشکریہ فیس بُک
پیمرا نے عمران خان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے — فوٹو بشکریہ فیس بُک

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان ملک کے چوتھے مرکزی سیاسی رہنما بن گئے ہیں جنہیں محدود میڈیا کوریج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس سے قبل ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز پہلے ہی اس پابندی کا سامنا کرچکے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کی لائیو تقاریر پر پابندی لگانے کے لیے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اپنا پرانا طریقہ اختیار کیا ہے جو اس نے اس سے قبل تین رہنماؤں کے خلاف استعمال کیا تھا جس میں انہیں عدالتی احکامات کا اطلاق اور پیمرا آرڈینس 2022 کے تحت طریقہ استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد

پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 20، جو الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کی تقاریر پر پابندی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اس سے قبل پیمرا نے 2019 میں،جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی، مریم نواز کے خلاف استعمال کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیمرا کے حکم نامے میں اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں کی گئی ان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

حکم نامےمیں کہا گیا کہ عمران خان اپنی تقاریر میں ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف’اشتعال انگیز بیانات’ کے ذریعے مسلسل ’بے بنیاد الزامات’ اور ’نفرت انگیز تقریر’پھیلا رہے ہیں۔

پیمرا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی تقریر میں ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف ’نفرت انگیز، ہتک آمیز اور غیر ضروری’ بیانات تھے، جو آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہیں جس کا عنوان ’آزادی اظہار وغیرہ’ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں آزادیِ اظہار کی صورتحال بدتر ہوگئی، رپورٹ

پیمرا نے پہلے تین رہنماؤں کی تقاریر پر پابندی کے لیے ماضی کے عدالتی احکامات کا بھی حوالہ دیا۔

6 جولائی 2019 کو پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو لاہور میں مریم نواز کی پریس کانفرنس کی ’غیر ترمیم شدہ لائیو ٹیلی کاسٹ’ نشر کرنے سے روک دیا تھا جہاں ان پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ عدلیہ کو بدنام کر رہی ہیں۔

پیمرا کا کہنا تھا کہ مریم کی تقریر اس کے آرڈیننس کے سیکشن 20 کی خلاف ورزی کرتی ہے، جس میں لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کے لیے شرائط و ضوابط طے کیے گئے ہیں، جس کتے تحت آئین میں درج ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور سالمیت کے تحفظ کو یقینی بنانا، قومی، ثقافتی، سماجی اور مذہبی اور عوامی پالیسی کی اقدار اور اصولوں کا تحفظ شامل ہے۔

پیمرا نے اُس وقت کہا تھا کہ مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں 12 ستمبر 2018 کو ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی توہین کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: فوج، عدلیہ کے خلاف 'نفرت انگیز' مواد نشر کرنے پر ٹی وی چینلز کو تنبیہ

پیمرا اب اُسی حکم کے متن کو عمران خان کی لائیو تقریروں پر پابندی لگانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

اکتوبر 2020 میں پیمرا نے چینلز کو مفرور اور اشتہاری مجرموں کی تقاریر، انٹرویوز اور عوامی خطاب نشر کرنے سے روک دیا تھا، ان ہدایات کا مقصد نواز شریف کو نشانہ بنانا تھا جو ایک سال قبل لندن روانہ ہو گئے تھے۔

یہ حکم تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے پارٹی اجلاس میں حکومت پر تنقید کے بعد آیا تھا جسے متعدد نیوز چینلز پر نشر کیا گیا تھا، نوازشریف پر عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کا بھی الزام تھا۔

اس وقت کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا تھا کہ نوازشریف ایک اور الطاف حسین بن گئے ہیں۔

شبلی فراز نے الزام لگایا تھا کہ نواز شریف کی تقاریر اشتعال انگیز تھیں اور کہا کہ جب الطاف حسین کی تقاریر کو نشر کرنے کی اجازت نہیں تو نواز شریف پر قانون کا مختلف طریقے سے اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا کا کیبل گیٹ پر ‘جھوٹی خبر’ نشر کرنے پر اے آر وائی کو شوکاز نوٹس

الطاف حسین اُن چار سیاسی رہنماؤں میں سے پہلے شخص ہیں جن پر الیکٹرانک میڈیا پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

ستمبر 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے ناصرف الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ان کی تصاویر نہ چلانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

'سوچ کے عمل کو محدود کرنا'

پیمرا کی جانب سے چینلز کو پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی لائیو تقریریں نشر کرنے سے روکنے کے اقدام کو سیاسی مخالفین نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

پیپلز پارٹی رہنما فرحت اللہ بابر نے ٹوئٹ میں کہا کہ’میڈیا سے سیاسی رہنما کو مکمل طور پر ہٹانا بہترین پالیسی نہیں ہے، چاہے قانون ایسا کرنے کی اجازت ہی کیوں نہ دیتے ہوں یاماضی میں ایسا کیا گیا ہو، ایسا کرنے سے نادانستہ طور پر کسی کی جان کو بڑا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

شہری حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری حاضر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے خلاف یہ حرکتیں غیر منصفانہ ہیں، الطاف حسین، نوازشریف یا مریم نواز سے لے کر عمران خان تک، کسی کے بھی سیاسی ردعمل پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پابندیاں سوچ کے عمل کو محدود کرنے کے مترادف ہیں، تقاریر پر پابندی کے بجائے سیاسی رہنماؤں کی بیان بازی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب جوابی بیانیہ ہونا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں