طویل جدوجہد کے بعد اسپین میں نئے ’ریپ قوانین‘ منظور

ماضی میں ریپ کیسز میں اسپین کی عدالتوں نے متنازع فیصلے بھی دیے—فوٹو: اے ایف پی
ماضی میں ریپ کیسز میں اسپین کی عدالتوں نے متنازع فیصلے بھی دیے—فوٹو: اے ایف پی

یورپی ملک اسپین میں کئی سال کی طویل جدوجہد کے بعد ’ریپ‘ سے متعلق نئے قوانین کو منظور کرلیا گیا، جنہیں ’صرف ہاں کا مطلب ہاں‘ ہی کا نام دیا گیا ہے۔

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق اسپین کے کانگریس (ایوان زیریں) نے 25 اگست کو 141 ووٹوں سے نئے قوانین کی منظوری دی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایوان زیریں کے 205 ارکان میں سے 141 ممبران نے نئے قوانین کی منظوری کے لیے ووٹ ڈالا، تین ارکان غیر حاضر رہے اور باقی تمام ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔

متنازع ریپ قوانین پر اسپین میں خواتین احتجاج کرتی رہی ہیں—فوٹو: رائٹرز
متنازع ریپ قوانین پر اسپین میں خواتین احتجاج کرتی رہی ہیں—فوٹو: رائٹرز

منظور کیے گئے نئے قوانین میں ’ریپ اور جنسی حملوں یا جرائم‘ کا فرق ختم کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ جب تک واضح رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار نہیں ہوتے، تب تک انہیں ’ریپ‘ ہی سمجھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بے ہوش لڑکی کے ’ریپ‘ پر اسپین کی عدالت کا انوکھا فیصلہ

قوانین میں واضح کیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کی خاموشی کو اس کی رضامندی سے منسوب نہیں کیا جائے گا اور ’صرف ہاں کا مطلب ہی ہاں‘ لیا جائے گا، اس کے بغیر اس طرح کے تمام جرائم ’ریپ‘ کے زمرے میں آئیں گے۔

نئے قوانین کی منظوری کے بعد وزارت مساوات سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالوں کی محنت رنگ لے آئی۔

اسپینی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف بھی احتجاج ہوتے رہے—فوٹو: اے ایف پی
اسپینی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف بھی احتجاج ہوتے رہے—فوٹو: اے ایف پی

مذکورہ قوانین کو اسپین کا ایوان بالا پہلے ہی منظور کر چکا تھا اور نئے قوانین عدالت کی جانب سے 2019 میں دیے گئے ایک متنازع فیصلے کے بعد بنانے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

نومبر 2019 میں اسپین کی عدالت نے 5 ملزمان کو 14 سالہ لڑکی کا بے ہوشی کی حالت میں ’ریپ‘ کرنے کا مجرم قرار نہیں دیا تھا اور کہا تھا کہ لڑکی کو بے ہوشی کی حالت میں معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تو ایسی صورت میں ملزمان کو ‘ریپ‘ کا مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

عدالت نے پانچوں ملزمان کو جنسی حملوں کے الزامات کے تحت قدرے کم سزائیں سنائی تھیں،جس پر اسپین بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے۔

اسی طرح ماضی میں بھی اسپین کی عدالت نے خاتون کا گینگ ریپ کرنے والے پانچ ملزمان کو ریپ کا مجرم قرار نہیں دیا تھا۔

اس وقت عدالت نے دلیل دی تھی کہ ملزمان کے موبائل سے ملنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون نے ریپ کے وقت اپنی آنکھیں بند نہیں کیں اور نہ ہی کوئی انکار کا رد عمل دیا۔

عدالت نے خاتون کی جانب سے آنکھیں بند کرنے اور کوئی رد عمل نہ دینے کو رضامندی اخذ کیا تھا اور اس پر بھی لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

نئے قوانین پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے خوشی کا اظہار کیا—فوٹو: شٹر اسٹاک
نئے قوانین پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے خوشی کا اظہار کیا—فوٹو: شٹر اسٹاک

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں