پی ٹی آئی کے خفیہ اکاؤنٹ سے 78 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن کا انکشاف

اپ ڈیٹ 28 اگست 2022
ایف آئی اے اس وقت سابق حکمراں جماعت کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کر رہی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
ایف آئی اے اس وقت سابق حکمراں جماعت کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کر رہی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ 78 کروڑ 70 لاکھ روپے سے زائد کی بھاری رقم ایک غیر اعلانیہ اکاؤنٹ میں جمع کرا کر نکالی گئی۔

یہ رقم مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک ایسے بینک میں رکھی تھی جو اب غیر فعال ہوچکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اس فیصلے کے تقریباً 3 ہفتے بعد سامنے آیا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے، جس کی پی ٹی آئی اب تک تردید کرتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کی تحقیقات کی نگرانی کیلئے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل

ایف آئی اے اس وقت سابق حکمراں جماعت کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کر رہی ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے غیر فعال بینک کی حاصل کی گئی ایک دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر 4 افراد کو اکاؤنٹ چلانے کی اجازت دی تھی۔

ان ناموں کی فہرست میں فریدالدین احمد بھی شامل ہیں، جو گزشتہ سال اکتوبر میں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے جاری کردہ آف شور ہولڈنگز اور بڑے لوگوں کی ممکنہ ٹیکس چوری سے متعلق پنڈورا پیپرز کے اجرا کے بعد منظر عام پر آئے تھے۔

انکشافات میں یہ بات سامنے آئی کہ فرید الدین احمد کے نام پر دو آف شور کمپنیاں ہاک فیلڈ لمیٹڈ اور لاک گیٹ انویسٹمنٹ رجسٹرڈ ہیں، دستاویزات میں پاکستان میں ان کا پتا 2-زمان پارک، لاہور کے طور پر دکھایا گیا ہے جو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ ہے۔

اس وقت عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے ان کی فریدالدین احمد کے ساتھ وابستگی کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نہ تو پی ٹی آئی کے سربراہ اس شخص کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی ملاقات ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان کا ایف آئی اے کے نوٹس کا جواب دینے سے انکار

بعد میں فریدالدین احمد نے عمران خان کے لنک اور ان کی آف شور کمپنیوں کے درمیان کسی بھی تعلق کی تردید بھی کی تھی لیکن کہا تھا کہ وہ اور عمران خان دونوں کا مشترکہ برکی ورثہ ہے۔

ایک اور مجاز اکاؤنٹ ہولڈر شیپس جم کے مالک عمر فاروق عرف گولڈی ہے، جو عمران خان کے قریبی دوست بتائے جاتے ہیں جبکہ دیگر دو میں حامد زمان اور رائے عزیز اللہ شامل ہیں۔

ان 4 افراد کو اکاؤنٹ چلانے کی اجازت دینے کا فیصلہ پی ٹی آئی کے سینٹرل فنانس بورڈ نے اکاؤنٹ کھولنے سے چند روز قبل 26 دسمبر 2012 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق کیا تھا۔ نوٹی فکیشن پر پارٹی کے اس وقت کے مرکزی فنانس سیکریٹری سردار اظہر طارق کے دستخط تھے۔

ایسے میں کہ جب تقریباً تمام بینکوں نے ای سی پی کے ساتھ اسٹیٹمنٹس اور دیگر مالی تفصیلات شیئر کیں، جن میں پی ٹی آئی کو موصول ہونے والی زرمبادلہ کی ترسیلات بھی شامل ہیں، زیر بحث بینک نے اب صرف ایف آئی اے کے ساتھ تفصیلات شیئر کی ہیں جبکہ اس سے پہلے ای سی پی کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'جن رہنماؤں کو ایف آئی اے نے طلب کیا ہے وہ 12-2011 میں عوامی عہدوں پر فائز نہیں تھے'

16 جولائی 2018 کو لکھے گئے خط میں بینک نے ابتدائی طور پر ای سی پی سے مزید وقت مانگا تھا اور آخر میں 20 اگست 2018 کو لکھے گئے ایک اور خط کے ذریعے سافٹ ویئر کی عدم مطابقت کو وجہ بتاتے ہوئے ای سی پی کے ساتھ تفصیلات شیئر کرنے سے اپنی معذوری کا اظہار کیا۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ پہلے اور دوسرے خط کے درمیان 5 ہفتوں کے اس وقفے کے دوران ملک میں عام انتخابات (25 جولائی 2018 کو منعقد ہوئے) اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 18 اگست 2018 کو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

ڈان نے سینئر نائب صدر فواد چوہدری اور سردار اظہر طارق سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن بار بار کوشش کے باوجود انہوں نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا آفس کے ترجمان نے کہا کہ یہ ایک 'ڈسبرسمنٹ اکاؤنٹ' ہے نہ کہ کلیکشن اکاؤنٹ اور اس میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں