توانائی بحران دنیا کو واپس جوہری توانائی کی جانب دھکیلنے لگا

اپ ڈیٹ 28 اگست 2022
چند ماہرین کا خیال ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی کو بطور آپشن نہیں دیکھا جانا چاہیے — فائل فوٹو: ڈان
چند ماہرین کا خیال ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی کو بطور آپشن نہیں دیکھا جانا چاہیے — فائل فوٹو: ڈان

عالمی سطح پر توانائی کی درآمدی لاگت میں اضافے اور موسمیاتی بحران کے سبب تباہی کے پیش نظر دنیا بھر میں کئی ممالک جوہری توانائی میں دلچسپی اور متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جاپان میں 2011 کے فوکوشیما حادثے کے بعد جوہری توانائی میں سرمایہ کاری میں کمی آئی (جو 1986 میں چرنوبل کے بعد دنیا کا بدترین جوہری حادثہ تھا) کیونکہ اس کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے تھے اور حکومتیں خوفزدہ ہو گئیں۔

تاہم فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد توانائی کی فراہمی میں کمی اور یورپ کی جانب سے روس کے تیل اور گیس پر انحصار میں کمی کی کوششوں کے بعد اب یہ رجحان واپس جوہری توانائی کے حق میں پلٹ رہا ہے۔

حکومتوں کو گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور قلیل وسائل کی وجہ سے مشکل فیصلوں کا سامنا ہے جن کی وجہ سے رواں سال موسم سرما میں بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توانائی بحران: مارکیٹوں کی جلد بندش کی تجویز کابینہ میں زیرغور

چند ماہرین کا اب بھی خیال ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، لیکن دیگر کا کہنا ہے کہ بہت سارے بحرانوں کے پیش نظر اسے دنیا کے توانائی کے مرکب کا حصہ رہنا چاہیے۔

جوہری توانائی پر نظرثانی کرنے والے ممالک میں سے ایک جاپان ہے جہاں 2011 کے حادثے کے سبب حفاظتی خدشات کے باعث بہت سے جوہری ری ایکٹر معطل کر دیے گئے تھے۔

رواں ہفتے جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے ملک کی جوہری توانائی کی صنعت کو بحال کرنے اور نئے ایٹمی پلانٹس کی تعمیر پر زور دیا۔

جوہری توانائی سے دور ہونے کے خواہاں دیگر ممالک نے ان منصوبوں کو فی الحال مختصر مدت کے لیے ترک کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: توانائی بحران کے پیشِ نظر بینکوں کو ’گھر سے کام‘ کی پالیسی تشکیل دینے کی ہدایت

یوکرین پر روس کے حملے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد بیلجیئم نے 2025 میں جوہری توانائی کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے کو ایک دہائی تک مؤخر کردیا۔

اس وقت 32 ممالک میں استعمال ہونے والی جوہری توانائی دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کا 10 فیصد فراہم کرتی ہے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے 2011 کی تباہی کے بعد پہلی بار ستمبر میں اس حوالے سے اپنے اندازوں میں اضافہ کیا۔

آئی اے ای اے کی جانب سے اب توقع کی جارہی ہے کہ سازگار منظر نامے کے مطابق 2050 تک موجودہ جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت دگنی ہوجائے گی۔

منقسم آرا

بجلی کی طلب میں اضافے کے پیش نظر کئی ممالک نے کوئلے کے متبادل کے طور پر جوہری انفرااسٹرکچر تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں چین بھی شامل ہے جس کے پاس پہلے ہی سب سے زیادہ ری ایکٹر موجود ہیں، نیز جمہوریہ چیک، بھارت اور پولینڈ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

اسی طرح برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز بھی یہی عزائم رکھتے ہیں، حتیٰ کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا سرمایہ کاری کا منصوبہ اس شعبے کی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری توانائی کا استعمال معاشرتی ترجیحات کی وجہ سے محدود ہوسکتا ہے کیونکہ تباہ کن حادثات کے خطرے اور تابکار فضلہ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے حل طلب مسئلے کی وجہ سے اس پر رائے منقسم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توانائی بحران کے باعث حکومت کا نئے ایل این جی ٹرمینل کی طرف جھکاؤ

نیوزی لینڈ سمیت چند ممالک جوہری توانائی کی مخالفت کرتے ہیں اور یورپی یونین میں بھی اس معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی ہے کہ اسے ’گرین انرجی‘ کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے یا نہیں۔

گزشتہ ماہ یورپی پارلیمنٹ نے ایک متنازع تجویز کی منظوری دی تھی جس میں گیس اور جوہری توانائی میں سرمایہ کاری کو پائیدار مالیاتی لیبل دیا گیا۔

نیوکلیئر انفرااسٹرکچر کے حوالے سے دیگر مسائل بھی موجود ہیں جس میں لاگت اور تاخیر پر سختی سے قابو پاتے ہوئے نئے ری ایکٹر بنانے کی صلاحیت شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں