عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے کا حکم معطل

اپ ڈیٹ 29 اگست 2022
پیمرا نے عمران خان کی تقاریر پر پابندی عائد کردی تھی — فوٹو بشکریہ فیس بُک
پیمرا نے عمران خان کی تقاریر پر پابندی عائد کردی تھی — فوٹو بشکریہ فیس بُک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر عائد پابندی سے متعلق پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے احکامات معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔

پیر کو درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیمرا کے احکامات معطل کرنے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد

دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر، فیصل چوہدری اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ملک میں سیلاب متاثرین کے لیے عمران خان ٹیلی تھون کرنا چاہتے ہیں، ٹیلی تھون سے سیلاب متاثرین کے لیے بڑی رقم اکٹھا ہوگی۔

عدالتی ہدایت پر وکلا نے عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھا جس پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ عمران خان کی تقریر کا دفاع کرتے ہیں؟ کیا ججز کو اس طرح دھمکیاں دی جاسکتی ہیں جس طرح دی گئی؟ تین سال جس طرح ظلم کیا گیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، بہت بوجھل دل سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ کو دھمکیاں دینے کی امید نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ افسوس ہے موجودہ حکومت وہی کر رہی ہے جو پچھلے تین سال ہوتا رہا، ایک خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں، کہا گیا جج کو چھوڑیں گے نہیں، کیا پارٹی لیڈر نے اپنے فالورز کو کہا کہ خاتون جج کو نہیں چھوڑنا؟ میرے بارے میں کہا جاتا تو کوئی بات نہیں لیکن خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹارچر ناقابل معافی ہے، خاتون جج کو دھمکیاں دینا اس سے بھی زیادہ ناقابل معافی ہے، پورے تنازع میں شہباز گل کے فیئر ٹرائل کو متنازع بنا دیا گیا، ٹارچر ایک الگ مسئلہ ہے آپ نے اس کو بھی متنازع بنایا۔

وکیل نے کہا کہ عمران خان کو اپنے بیان پر شوکاز نوٹس مل چکا ہے، عمران خان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے شہباز گل پر تشدد کے نشانات دیکھے ہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیمرا کہتا ہے کہ چینل نے ٹائم ڈیلے کی پالیسی نہیں اپنائی۔

یہ بھی پڑھیں: تقریر نشر کرنے پر پابندی، عمران خان پیمرا کے زیر عتاب آنے والے چوتھے سیاسی رہنما

چیف جسٹس نے کہا کہ سارے چینلز نے بغیر ٹائم ڈیلے کے دکھایا ہے؟ پھر تو یہ ذمہ داری نیوز چینلز پر آتی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پھر یہ براہ راست تو چلتا ہی نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 12 سیکنڈز کا ٹائم ڈیلے ہوتا ہے تاکہ کوئی غلط بات کرے تو اسے سینسر کیا جاسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو ایکشن نیوز چینلز کے خلاف ہونا چاہیے، اگر کوئی سزا یافتہ نہیں تو اس پر ایسی پابندی نہیں لگائی جاسکتی، ہمارے تھانوں کا کلچر ہے کہ ٹارچر ہوتا ہے، جس جذبے سے اپوزیشن میں آکر بولتے ہیں اگر حکومت میں آکر بولیں تو صورتحال مختلف ہو، یہ قوم آج بھی تقسیم ہے اور اسے متحد کرنے کی ضرورت ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ چینلز نے ٹائم ڈیلے نہیں کیا تو پیمرا نے ہمیشہ کے لیے عمران خان کی براہ راست تقاریر پر پابندی لگا دی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایگزیکٹوز جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ تھانے میں ٹارچر ہوتا ہے، آج تک کسی بھی ایگزیکٹو نے ٹارچر کو ایشو کے طور پر نہیں دیکھا، سب سے بڑا ٹارچر اس ملک میں جبری گمشدگیاں ہیں۔

وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں پیمرا نے عمران خان کی تقریر پر پابندی لگا کر اختیار سے تجاوز کیا اور موجودہ حالات میں عمران خان کی تقریر پر پابندی کی کوئی مناسب وجہ نظر نہیں آتی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں آزادیِ اظہار کی صورتحال بدتر ہوگئی، رپورٹ

عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت 5 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

گزشتہ روز دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں شہباز گل پر تشدد کا حوالہ دیا تھا لیکن تقریر میں ذمہ داروں کےخلاف قانونی کارروائی کی بات کی تھی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ قانونی کارروائی کا حق قانون نے بطور شہری دے رکھا ہے، میری تقریر کو غلط طور پر نفرت انگیز تقریر کے طور پر لیا گیا، کسی کو بھی قانونی کارروائی کا کہنا نفرت انگیزی میں نہیں آتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پیمرا کا براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

نوٹی فکیشن میں اس سے ایک روز قبل عمران خان کی ایف نائن پارک اسلام آباد میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں، ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف ان کے بیانات آرٹیکل 19 کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

نوٹی فکیشن میں تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ عمران خان کی تقاریر اور خطاب براہ راست نشر نہ کریں، تاہم ان کی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے راولپنڈی جلسے میں تقریر کے دوران مبینہ طور پر یوٹیوب سروس متاثر

نوٹی فکیشن میں واضح کیا گیا کہ عمران خان کی ریکارڈ شدہ تقریر بھی ٹائم ڈیلے کے طریقہ کار کے تحت ہی دکھائی جاسکتی ہے تاکہ ان تقاریر کی مانیٹرنگ اور ایڈیٹوریل کنٹرول یقینی بنایا جاسکے۔

یاد رہے کہ 20 اگست کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے عدلیہ کو اپنی پارٹی کے ساتھ ’متعصبانہ رویے‘ پر خبردار کرتے ہوئے نتائج کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کی تھی۔

ڈاکٹر شہباز گل سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ’شہباز گل کو اس طرح اٹھایا گیا جیسے وہ کوئی بہت بڑا غدار ہو، اسلام آباد کے آئی جی، ڈی آئی جی ہم نے آپ کو نہیں چھوڑنا، ہم آپ کے خلاف کیس کریں گے‘۔

انہوں نے خاتون مجسٹریٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کو معلوم تھا کہ شہباز گِل پر ظلم ہوا ہے اور پھر بھی آپ نے اسے ضمانت نہیں دی، مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان کے اوپر کیس کرنے لگے ہیں، اگر شہباز گل کے اوپر کیس ہوسکتا ہے تو یہ سارے فضل الرحمٰن، نواز شریف اور رانا ثنااللہ سب پر کیس کرنے لگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گل کے ساتھ انہوں نے جو کیا، انہوں نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اڑا دیں، آج اپنے وکلا سے ملاقات کی ہے، آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون مجسٹریٹ پر کیس کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں