بھارت سے اشیائے خورونوش درآمد کرنے پر غور کرسکتے ہیں، مفتاح اسمٰعیل

اپ ڈیٹ 29 اگست 2022
وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ریڈیو پاکستان
وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ریڈیو پاکستان

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حکومت لوگوں کی سہولت کے لیے بھارت سے سبزیاں و دیگر اشیائے خورونوش درامد کرنے پر غور کرسکتی ہے کیونکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مفتاح اسمٰعیل نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں یہ بیان دیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ قلت کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور انہوں نے سیکریٹری تجارت اور سیکریٹری خزانہ سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے اور وہ ایک یا دو دن میں وزیراعظم کے پاس لائحہ عمل لے کر جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ڈیوٹی فری درآمدات کھولیں گے، میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم بھارت کے ساتھ زمینی راستے کے ذریعے درآمدات پر غور کریں گے کیونکہ سبزیوں کی قیمتیں غیر مستحکم ہیں۔

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ وہ عام طور پر کسانوں کے پیسے کمانے کے حق میں ہیں اور درآمدات نہیں کھولنا چاہتے لیکن یہ ایک ‘غیر معمولی صورتحال’ ہے اور ضرورت پڑنے پر بھارت کے ساتھ تجارت کھولی جا سکتی ہے۔

خیال رہے کہ آج ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور سندھ میں سیلاب سے فصلوں کی تباہی اور منڈیوں میں سپلائی کم ہونے کے باعث کراچی کی مارکیٹ میں ٹماٹر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور ایک کلو ٹماٹر کی قیمت 480 روپے ہوگئی جبکہ پیاز کی قیمت 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔

جبکہ پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں 60 سے 90 روپے فی کلو اضافے سے ان کی قیمت 110 اور 150 روپے فی کلو پر پہنچ گئی۔

ایک صارف نے ڈان کو بتایا تھا کہ گلشن اقبال کے معروف سُپر اسٹور میں ایک کلو ٹماٹر 480 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: آڈیو لیک: طے ہوگیا کہ خط آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کرنے کیلئے لکھا گیا، مفتاح اسمٰعیل

اس کے ساتھ ساتھ شملہ مرچ 320 روپے فی کلو، لوکی 200 روپے فی کلو اور تورائی 160 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں جبکہ گوبھی کی قیمت 240 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے، اس کے علاوہ کھیرے 200 روپے فی کلو، ہرا دھنیا اور پودینا کی ایک گڈی 30 روپے جبکہ بھنڈی 250 سے 320 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔

فلاحی انجمن ہول سیل سبزی منڈی سپرہائی وے کے صدر حاجی شاہجہان نے بتایا تھا کہ بلوچستان میں ٹماٹر اور پیاز کی آمد 10 فیصد تک محدود ہوگئی ہے جبکہ فصلوں کو پہنچنے والے نقصان، سیلابی پانی کھڑا ہونے اور بلوچستان سے کراچی جانے والی سڑکوں کو پہنچنے والے بھاری نقصان کی وجہ سے سندھ میں صرف 30 فیصد اشیا ہول سیل مارکیٹ میں پہنچ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ 9 اگست 2019 کو وفاقی کابینہ نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام کے بعد پڑوسی ملک سے دوطرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا، بھارتی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق

21 فروری 2022 کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق سابق مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت وقت کی اہم ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے۔

مارچ 2021 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اعلان کیا تھا کہ وہ نجی سیکٹر کو اجازت دیں کہ بھارت سے 5 لاکھ ٹن چینی اور کپاس واہگہ بارڈر کے ذریعے درآمد کریں، تاہم موجودہ اتحادی حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کی کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید کی گئی تھی جس کے بعد چند دنوں میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔

11 مئی 2022 کو رواں برس کومت تبدیل ہونے کے بعد وفاقی وزارت تجارت نے کہا تھا کہ ٹریڈ منسٹر کی تعیناتی کو بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی سے نہ جوڑا جائے کیونکہ تجارتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے جاری بیان میں تجارت معطل ہونے کے باوجود بھارت میں ٹریڈ منسٹر تعینات کرنے کے فیصلے کی سرکاری سطح پر تصدیق کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل

یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا تھا جب سوشل میڈیا پر بڑے پیانے پر قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بھارت سے تجارت بحال کرنے پر غور کررہی ہے۔

16 جون کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دیگر ممالک خصوصاً بھارت اور امریکہ کے ساتھ تجارت اور روابط کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار تھا۔

اپنی تقریر میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات پر زیادہ زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقتصادی سفارت کاری اور دونوں ممالک کے درمیان رابطوں پر توجہ دی جائے۔

وزیر خارجہ کی دلیل یہ تھی کہ جنگ اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات اور اس کے مسلم مخالف ایجنڈے کے باوجود رابطے منقطع رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی بےقدری میں سیاسی صورتحال کا بڑا ہاتھ ہے، مفتاح اسمٰعیل

17 جون 2022 کو دفتر خارجہ نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارت کے ساتھ تعلقات سے متعلق دیے گئے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جب کہ موجودہ پالیسی پر قومی اتفاق رائے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں