سیلاب زدہ علاقوں سے 50 ہزار سے زائد افراد کی کراچی آمد

اپ ڈیٹ 30 اگست 2022
روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 3 سے 4 ہزار سیلاب سے متاثرہ افراد شہر قائد پہنچ رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 3 سے 4 ہزار سیلاب سے متاثرہ افراد شہر قائد پہنچ رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

سندھ کے مختلف حصوں میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کراچی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور صوبائی حکومت کے اندازے کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ لوگ پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور فی الحال ملک کے سب سے بڑے شہر میں مقامی انتظامیہ کے قائم کردہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے کئی آفت زدہ اضلاع سے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 3 سے 4 ہزار سیلاب سے متاثرہ افراد شہر پہنچ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سیہون: سیلاب متاثرین کی کشتی حادثے کا شکار، 12 افراد جاں بحق

رپورٹ کے مطابق تازہ اعداد و شمار اور تخمینوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے کراچی چیپٹر کے اجلاس میں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا جہاں پارٹی رہنماؤں، قانون سازوں اور وزرا نے ابھرتے ہوئے چیلنجز، سیلاب کے اثرات اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

سندھ کے وزیر محنت اور پیپلز پارٹی کے کراچی ڈویژن کے صدر سعید غنی نے اجلاس کی صدارت کی جس میں سیلاب متاثرین کی بحالی، ان کی موجودہ صورتحال اور امدادی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دوران گفتگو یہ بات سامنے آئی کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے والے سیلاب نے متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو کراچی جانے پر مجبور کردیا جہاں وہ صوبائی حکومت کے قائم کردہ کیمپوں میں مقیم تھے۔

ساتھ ہی حکمراں جماعت کی طرف سے یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ بعض عناصر صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور سیلاب زدگان کی آڑ میں اپنے مجرمانہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ٹماٹر کی قیمت 480 روپے فی کلو تک پہنچ گئی

پارٹی کے ایک بیان کے مطابق سعید غنی نے اجلاس کو بتایا کہ اب تک تقریباً 50 ہزار سیلاب متاثرین پہلے ہی کراچی پہنچ چکے ہیں، یہ تمام لوگ سندھ حکومت کی جانب سے سچل گوٹھ اور ضلع شرقی، غربی اور کیماڑی میں لگائے گئے کیمپوں میں مقیم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام لوگ اپنی مرضی سے کراچی آئے ہیں، اطلاعات ہیں کہ کچھ زمینوں پر قبضہ کرنے والے اور جرائم پیشہ عناصر سیلاب زدگان کا نام اپنے مفادات کے لیے استعمال کر کے انہیں بدنام کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی اور پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی نے اجلاس کو بتایا کہ صوبائی حکومت ان تمام کیمپوں میں طبی سہولیات کا بندوبست کر رہی ہے جہاں سیلاب متاثرین قیام پذیر ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پارٹی کوئی نقد عطیہ جمع نہیں کر رہی ہے اور اگر کوئی نقد رقم دینا چاہتا ہے تو اسے سندھ حکومت کے امدادی اکاؤنٹ میں جمع کرانی چاہیے۔

سندھ کی وزیر برائے ترقی نسواں سیدہ شہلا رضا اور پیپلز پارٹی سندھ کی انفارمیشن سیکریٹری نے خواتین اور بچوں اور ان کی ضروریات پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: حالیہ سیلاب نے سوات کے گاؤں میں 12 سال قبل ہوئی تباہی کے زخم تازہ کردیے

انہوں نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے کیمپوں میں خوراک کی کوئی کمی نہیں ہے جہاں سیلاب متاثرین قیام پذیر ہیں لیکن ہمیں خواتین اور بچوں کی ضروریات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہم نے خواتین اور بچوں کی طرف سے استعمال میں آنے والے مخصوص سامان کے لیے اپنی کوششیں پہلے ہی شروع کر دی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام امدادی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ راشن سندھ کے دیہی علاقوں میں بھیجیں کیونکہ یہاں کیمپوں میں ان کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں یہاں کیمپوں میں بچوں کے لیے دودھ اور خاص طور پر خواتین کے استعمال میں آنے والی مصنوعات کی ضرورت ہے۔

ملیر سے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی محمد ساجد جوکھیو نے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں دیہی سندھ سے کراچی کے مختلف اضلاع میں منتقل ہونے والے لوگوں کی تعداد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں حالیہ سیلاب سے انفرا اسٹرکچر، وسائل اور روزی روٹی کے ذرائع ختم ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضلع ملیر میں سندھ کے مختلف علاقوں سے تقریباً 25 ہزار سیلاب متاثرین قیام پذیر ہیں، ایک محدود اندازے کے مطابق تقریباً 3 سے 4 ہزار افراد دیہی سندھ سے روزانہ کراچی پہنچ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کے باعث پاکستان کو 10 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ

ساجد جوکھیو نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان لوگوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں رہنے کی پیشکش کرنے کے بجائے ناردرن بائی پاس کے ساتھ ایک ٹینٹ سٹی قائم کرنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں