ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 3 سالوں میں انسانی حقوق کی پامالی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

گزشتہ روز جاری کی گئی ایک رپورٹ ‘ہمیں قانون کے ذریعے سزا دی جا رہی ہے: جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے تین سال’ میں انسانی حقوق کے ادارے نے مشاہدہ کیا کہ حالیہ برسوں میں سول سوسائٹی کے اراکین، صحافیوں، وکلا اور خطے میں انسانی حقوق کے کارکنان کو مسلسل پوچھ گچھ، سفری پابندیوں اور میڈیا کو جابرانہ پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل بورڈ کے صدر آکار پٹیل نے رپورٹ میں بتایا کہ تین سالوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی اور میڈیا پربھارتی حکومت کی جانب سے ظالمانہ کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، جو ڈراکونین قوانین، پالیسیوں اور غیر قانونی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے رکھنے والوں کو دبا رہا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ حکام تنقیدی آوازوں کو ہراساں کرکے اور دھمکا کے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں معلومات کے تمام معتبر اور آزاد ذرائع کو نشانہ بنا رہے ہیں، تمام اختلاف رائے رکھنے والوں پر شدید جبر کے ذریعے خاموشی حاصل کی گئی ہے، جس کے سبب خطے میں خوف اور بے یقینی کی کیفیت پھیل گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی فورسز نے 2019 سے اب تک 660 کشمیریوں کو قتل کیا، ترجمان دفترخارجہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ اس نے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان پر اگست 2019 سے اب تک کم از کم 60 واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔

اس میں بتایا گیا کہ بھارتی حکومت نے میڈیا کو محدود کرنے والی پالیسیز جیسا کہ 2020 کی نظرثانی شدہ میڈیا پالیسی اور 2021 کی فلم پالیسی کو منظور کرکے مقبوضہ کشمیر سے معلومات باہر آنے کو مکمل طور پر قابو کیا ہوا ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارتی حکام ابتدائی طور پر 18 مہینے انٹرنیٹ کی بندش کے بعد مقبوضہ کشمیر کے متعدد حصوں میں بغیر کسی پیشگی نوٹس کے اکثر انٹرنیٹ سروس معطل کر دیتی ہے، اس کے ساتھ بھارتی حکومت کی جانب سے 2022 میں کشمیر پریس کلب کی اچانک ‘جبری بندش’ میڈیا کے لیے بڑا دھچکا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیم کو یہ بھی پتا چلا کہ کم از کم 6 افراد جس میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور خطے کے ماہرین تعلیم شامل ہیں، ان کو سفری دستاویزات ہونے کے باوجود ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا، جس پر رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ان کے آزادانہ گھومنے کے حق کی خلاف وزری ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 سے اب تک 27 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ متعدد صحافیوں بشمول فہد شاہ، آصف سلطان اور سجاد گل کو ‘بار بار گرفتار’ کیا گیا، ان کو ایک قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، عدالت کی جانب سے ضمانت دی گئی، اور پھر انہیں فوری طور پر غیرقانونی سرگرمیوں (پری وینشن) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا بنیادی انسداد دہشت گردی قانون کے تحت انہیں مسلسل نظر بند رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی قیدی کے ‘ماورائے عدالت قتل’ پر پاکستان کا شدید احتجاج

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود 1 ہزار 346 مقدمات کا جائزہ لیا، اس میں پتا چلا کہ یکم اگست 2022 تک حبسِ بے جا کی درخواستوں میں 32 فیصد اضافہ ہوا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ گزشتہ 3 برسوں میں غیرقانونی گرفتاریوں میں اضافہ ہوا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے شائع ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا اور پتا چلا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 2019 سے یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ) کے استعمال میں 12 فیصد اضافہ ہوا۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلح گروپ کی جانب سے لوگوں کے غیر قانونی قتل میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انتظامی حراست اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے خلاف باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمہ چلایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: یومِ استحصال کشمیر: پاکستان کا کشمیریوں سے بھرپور اظہارِ یکجہتی، حمایت جاری رکھنے کا عزم

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹہرائے اور خطے میں فوری اور آزادانہ تحقیقات کی سہولت فراہم کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں