ایشیا پیسیفک کی نصف افرادی قوت یومیہ 5.5 ڈالر پر زندگی گزارنے پر مجبور

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2022
رپورٹ کے مطابق 27 میں سے 16 ممالک میں نصف سے زیادہ ملازمت پیشہ خواتین بے قاعدہ ملازمتوں سے وابستہ ہیں—فائل فوٹو:اے پی پی
رپورٹ کے مطابق 27 میں سے 16 ممالک میں نصف سے زیادہ ملازمت پیشہ خواتین بے قاعدہ ملازمتوں سے وابستہ ہیں—فائل فوٹو:اے پی پی

اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا بحرالکاہل (یو این ای اسی سی اے پی) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسفک خطے کی نصف افرادی قوت خط غربت سے نیچے یا اس کے دہانے پر کھڑی ہے جو کہ یومیہ 5.5 ڈالر پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

ڈان اخبارکی رپورٹ کے مطابق یو این ای ایس سی اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے کی نصف سے زیادہ آبادی کو کسی بھی قسم کا سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے، افرادی قوت کو وبائی امراض یا معاشی بدحالی جیسے مسائل سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خطے کی افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت، صحت اور تحفظ ناکافی ہے تاہم 2015 سے اس میں کچھ بہتری ہوئی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 3 میں سے 2 افراد باقاعدہ ملازم کے طور پر کام نہیں کرتے، ان کی تعداد ایک ارب 40 کروڑ ہے جن میں سے 60 کروڑ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کے باعث ایشیا پسیفک میں 9 کروڑ افراد کا شدید غربت کا شکار ہونے کا امکان

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کے پاس مناسب تعلیم اور خصوصی ہنر کا فقدان ہے جو عالمی سطح پر پیدا ہونے والے مواقع تک رسائی حاصل کرنے یا متعلقہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے درکار ہیں، یہ کمی مزدوروں کی پیداواری صلاحیت کو کمزور کرتی ہے جو کہ عالمی اوسط سے نیچے آچکی ہے، پائیدار ذریعہ معاش بہت سے لوگوں، خاص طور پر خواتین اور دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی پہنچ سے دور ہے۔

27 میں سے 16 ممالک میں نصف سے زیادہ ملازمت پیشہ خواتین بے قاعدہ ملازمتوں سے وابستہ ہیں، 15 ممالک میں مردوں کی نسبت خواتین کے بے قاعدہ ملازمتوں سے وابستہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، یہ فرق خاص طور پر ترکی، مارشل آئی لینڈ، نیپال اور پاکستان میں زیادہ ہے۔

صحت کی مناسب سہولیات کی عدم موجودگی افرادی قوت کی صحت، پیداواری صلاحیت اور مستقبل کی معاشی پیداوار کے لیے نقصان دہ ہے، ایشیا بحرالکاہل میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں لوگوں کی اوسط عمر زیادہ آمدنی والے ممالک کے لوگوں کے مقابلے میں 13 برس کم ہے اور بچوں کی اموات کی شرح 10 گنا زیادہ ہے، کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں بچوں کی خراب صحت علاج اور تعلیم کی سہولیات میں کم سرمایہ کاری کی وجہ سے مزید بگڑ جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان سماجی بہبود، تعلیم اور صحت پر کم خرچ کرنے والے ممالک میں شامل

یہ صورتحال مستقبل میں افرادی قوت کے لیے معقول ملازمت تلاش کرنے کے امکانات کو کم کرتی ہے اور مستقبل کے ٹیکس محصولات اور اقتصادی پیداوار میں بھی رکاوٹ ہے۔

ایشیا و بحرالکاہل کے صرف چند ممالک ہی یونیورسل ہیلتھ کوریج (یو ایچ سی) تک پہنچ چکے ہیں اور صحت سے کے بلند اخراجات کسی بھی ملک سے زیادہ ہمارے خطے میں لوگوں کو غربت میں دھکیلنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

کورونا وبا نے سماجی تحفظ کی شدید کمی کا ثبوت فراہم کیا جس نے ساڑھے 8 کروڑ غیر محفوظ افراد کو غربت میں دھکیل دیا گیا جو یومیہ 1.9 ڈالر سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 15 کروڑ 80 لاکھ افراد غربت کے درمیانی درجے پر ہیں جو 3.2 ڈالر یومیہ پر گزارا کر رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافہ اور ڈیجیٹلائزیشن عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ہیں جو کچھ افراد کے لیے مواقع پیدا کر سکتے ہیں اور دیگر کی ناگفتہ صورتحال میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں