توہین عدالت کیس: رانا شمیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2022
رانا شمیم نے کہا ایک جج کا نام غلط فہمی کی بنا پر لکھ دیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
رانا شمیم نے کہا ایک جج کا نام غلط فہمی کی بنا پر لکھ دیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگ لی۔

رانا شمیم نے معافی نامے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ثاقب نثار نے اپنی گفتگو میں بار بار سینئر ترین (سینئر پیونی) جج کا لفظ دہرایا، بیان حلفی میں سینئر ترین جج لکھنا چاہتا تھا، ایک جج کا نام غلط فہمی کی بنا پر لکھ دیا۔

رانا شمیم نے کہا ہے کہ لان میں چائے پر ثاقب نثار سے ملاقات کے دوران ان کی گفتگو سنی، میں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے منہ سے سینئر پیونی جج کے الفاظ بار بار سنے، بیان حلفی تین سال بعد 72 سال کی عمر میں ذہنی دباؤ میں لکھا۔

یہ بھی پڑھیں: بیان حلفی کیس، رانا شمیم کو گواہوں کی فہرست جمع کرانے کا آخری موقع

رانا شمیم نے کہا کہ غلط فہمی کی بنا پر سینئر پیونی جج کے بجائے جج کا نام بیان حلفی میں لکھ دیا، غلطی پر گہرا دکھ ہے اور عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہوں نے اپنے معافی نامے میں مزید کہا کہ جب سے کارروائی شروع ہوئی ہیں، تب سے دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہا ہوں۔

رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ ہم نے غیر مشروط معافی جمع کروا دی ہے، اور استدعا کی کہ ہماری غیر مشروط معافی تسلیم کی جائے، چیف جسٹس نے رانا شمیم کو نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے غیر مشروط معافی کے ساتھ بیان حلفی جمع کرایا ہے؟ اس عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں تو یہ عدالت نوٹس نہیں لے گی، جب انصاف کی فراہمی کو متنازع بنایا جائے گا تو پھر نوٹس لیں گے۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم و دیگر فریقین پر 7 جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر مشروط معافی عدالت سے متعلق نہیں بلکہ اپنے اقدام کا داغ دور کرنا ہوتا ہے، اگر کوئی حقیقی معافی مانگے اور کنڈکٹ درست ہو تو عدالت کو معافی تسلیم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

انہوں نے کہا کہ رانا شمیم اگر اپنے بیان حلفی کے متن کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر بات تو برقرار ہے، چیف جسٹس پاکستان یا کوئی اور اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں یہ تاثر غلط ہے، دونوں چیزیں اکٹھی نہیں جاسکتیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ کوئی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج پر اثر انداز ہوا، یہ عوام کا اعتماد اٹھانے کی کوشش ہے، جس جج کا بیان حلفی میں نام ہے وہ تو اُس وقت اِس کورٹ میں چوتھے نمبر پر تھے، آپ نے سینئر پیونی جج کا لکھا، سینئر پیونی جج کس کورٹ کا؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ تو اب آپ معاملے کو اور متنازع بنا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم، دیگر کےخلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر

لطیف آفریدی نے مؤقف اپنایا کہ رانا شمیم کی بھابھی سمیت خاندان میں اموات ہوئیں تھیں، رانا شمیم نے ذہنی تناؤ کی صورت حال میں بیان حلفی لکھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں توہین عدالت کی کارروائی میں ہمیشہ بڑے دل کا مظاہرہ کرتی ہیں، اگر رانا شمیم بیان حلفی کے ساتھ کھڑے ہیں تو اس عدالت کو اپنے محاسبے کی ضرورت ہے، اتنے بڑے اخبار میں خبر لگی تھی اور آج کہہ رہے ہیں کہ میرا حافظہ کمزور ہو گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اس عدالت کے لیے بہت سنجیدہ معاملہ ہے، یہ عدالت کسی کو دباؤ میں نہیں لانا چاہتی، جو بھی سچ ہے وہ کہیں، یہ عدالت کسی بھی شخص کے لیے بڑے دل کا مظاہرہ کرتی ہے، 2018 کے بعد کوئی اس عدالت پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو میں اور اس عدالت کے ججز قابل احتساب ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت اس بیان حلفی پر بھی کارروائی کر سکتی تھی لیکن یہ عدالت رانا شمیم صاحب کو بیان حلفی جمع کرانے کے لیے پھر وقت دے سکتی ہے، اس عدالت پر جو اتنا بڑا الزام لگایا گیا ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: ملزمان پر 20 جنوری کو فرد جرم عائد کی جائے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ

لطیف آفریدی نے کہا کہ ہم خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں، عدالت جو بھی کہے مانیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آپ کو کچھ نہیں کہے گی، ہماری طرف سے کوئی دباؤ نہیں، یہ توہین عدالت کی کارروائی ہے، عدالت کسی کو نقصان نہیں دینا چاہتی، ایک ہفتے میں تسلی سے سوچ کر نیا بیان حلفی جمع کرائیں، اس عدالت نے آپ کو بڑی سادہ اور واضح بات بتا دی ہے۔

رانا شمیم نے بیان دیا کہ میں آج ہی نیا بیان حلفی جمع کروا دیتا ہوں جس پر ان کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ نہیں نہیں، آج ہی نہیں، ابھی رہنے دیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اخبار کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟ جس پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ بیان حلفی شائع کر کے عدالت کی ہتک عزت کی گئی، اخبار کو غیر مشروط معافی والا بیان حلفی بھی اسی طرح شائع کرنا چاہیے۔

عدالت نے رانا شمیم کو دوبارہ جواب جمع کرانے کا موقع دیتے ہوئے سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کردی۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 15 نومبر2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزار نے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے معاملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور سوال کیا تھا کہ اگر نواز شریف جیل جا سکتے ہیں تو ثاقب نثار کیوں نہیں جا سکتے۔

30 نومبر کو رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے۔

عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر کو اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں