ڈالر ایک بار پھر مہنگا، انٹربینک میں روپے کی قدر میں ایک روپے 64 پیسے کی کمی

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2022
کومل منصور کا کہنا ہے کہ ملک میں درآمدات عارضی طور پر معطل ہیں — فائل فوٹو: ڈان آرکائیوز
کومل منصور کا کہنا ہے کہ ملک میں درآمدات عارضی طور پر معطل ہیں — فائل فوٹو: ڈان آرکائیوز

ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور انٹربینک میں روپے کی قدر میں مزید ایک روپے 64 پیسے کی کمی واقع ہوگئی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق ڈالر کی قیمت دن کے اختتام پر 229 روپے 82 پیسے رہی اور اس طرح روپے کی قدر میں 0.71 فیصد کمی ہوئی۔

اس سے قبل فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق انٹر بینک میں مقامی کرنسی دوپہر 12 بجے 229 روپے 9 پیسے فی ڈالر پر ٹریڈ کر رہی تھی جو روپے کی قدر میں 0.75 فیصد کی کمی کو ظاہر کررہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی قدر میں ریکارڈ بہتری، انٹر بینک میں ڈالر 9 روپے 59 پیسے سستا ہوگیا

اسی دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر 234 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ سیلاب کے نتیجے میں درآمدی بل میں متوقع اضافہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رقم موصول ہونے پر سرمایہ کاری کا وعدہ کرنے والے دوست ممالک نے اپنے وعدوں پر اب تک عمل نہیں کیا۔

ظفر پراچا نے کہا کہ وعدوں کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ پاکستان کی سیاسی صورتحال، کرپشن اور رقم کی ادائیگی کے حوالے سے ماضی کا ریکارڈ ہے، ہمارا خیال تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے رقم کی ادائیگی کے بعد روپے کی قدر میں 10 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: ڈالر 4 روپے اضافے کے بعد 237 روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا

انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم موصول ہوئی جو ناکافی ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ملک کو موجودہ مالی سال میں 40 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنے کی ضرورت ہے جبکہ حکومت نے پہلے کہا تھا کہ انہوں نے مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تمام انتظامات کرلیے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے بیانات تبدیل کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل پریس کانفرنس کے دوران پریشان دکھائی دیے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ روپے پر دباؤ برقرار ہے۔

ظفر پراچا کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے میں تاخیر کی ہے جبکہ اب ملک دوبارہ ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اشیا اور کرنسی کی اسمگلنگ جیسے مسائل کو حل نہیں کر پارہی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر مزید مہنگا، 232 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

ٹریس مارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور کا کہنا ہے کہ ملک میں درآمدات عارضی طور پر معطل ہیں لیکن ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کی وجہ سے نقد ادائیگیوں میں مسئلہ پیش آرہا ہے۔

انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق کی وجہ سے بین الاقوامی کرنسی اکاؤنٹ سے امریکی ڈالر نکالنے والے صارفین کو فائدہ ہو رہا ہے اور وہ ڈالر کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، بین الاقوامی اکاؤنٹ میں انتہائی کم شرح سود کی وجہ سے یہ صارفین ڈپازٹ کو ترجیح نہیں دے رہے۔

میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ روپے پر دباؤ ہونے کی وجہ سے بینکوں نے غیر ضروری درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنا بند کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: معیشت درست سمت میں ہے، منفی تجزیے درست نہیں، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک

انہوں نے نشاندہی کی کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے سپلائی کو جھٹکا لگا ہے اور سیلاب کی وجہ سے کپاس کی فصلیں بہہ گئی ہیں جس کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت برآمد کنندگان کے لیے ادائیگیوں کا انتظام کرے تاکہ جس دن برآمدات کی کھیپ بھیجی جائے اسی دن ڈالر روپے میں تبدیل ہو جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسی پالیسی متعارف کروائی جاتی ہے تو حکومت 5 سے 6 ارب ڈالر واپس لاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر مزید مہنگا، 232 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

2 ستمبر سے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی آئی ہے جبکہ پچھلے ہفتے کے دوران روپیہ 9 روپے 2 پیسے سے کمی کے بعد 228 روپے 18 پیسے پر آگیا تھا۔

مالیاتی اعدادوشمار اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق گزشتہ 52 ہفتوں کے دوران روپے کی قدر میں 26 روپے 37 پیسے کمی واقع ہوئی ہے، 28 جولائی کو روپیہ 239 روپے 94 پیسے کی ریکارڈ کم ترین سطح پر گر گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں