چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا مگر تحمل کا مظاہرہ کیا۔

سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججوں کی تقرریوں کے سلسلے میں بار کی معاونت درکار ہے، مارچ 2022 سے ہونے والے سیاسی ایونٹس کی وجہ سے سیاسی مقدمات نئے عدالتوں میں آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اراکین کے ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ’ٹی پارٹی‘ بن جائے گی، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئندہ 6ماہ میں مقدمات کی تعداد 45 ہزار تک لے کر آئیں گے۔

تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پرسیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل دیا مگر تحمل کا مظاہرہ کیا، اٹارنی جنرل نے جج تقرری پر زور دیا تو صدر سپریم کورٹ بار نے عدلیہ کی کردار کشی کرنے والوں کے خلاف نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر ججوں کی مشاورت سے ازخود نوٹس لیا تھا اور پانچ دن سماعت کرکے رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کا فیصلہ تین دن میں سنایا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ ججوں کی تقرریوں کا طریقہ کار باہمی اتفاق رائے سے طے ہونا باقی ہے، ضروری ہے کہ قابل جج کو سپریم کورٹ لایا جائے، پارلیمانی جمہوریت میں دستیاب آزادیوں کو سلب کرنے کا سلسلہ رکنا چاہیے۔

صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ آئین اور جمہوریت کے خلاف سازشوں سے ملک میں بے جا انتشار ہوا ہے، اقتدار کی ہوس میں اعلیٰ عدلیہ کے ضبط کو بار بار آزمایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمر عطا بندیال باضابطہ طور پر ملک کے اگلے چیف جسٹس مقرر

واضح رہے کہ 8 اپریل کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام ججوں کا متفقہ فیصلہ ہے، ہم نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی تھی جبکہ وزیر اعظم صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔

عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے گی۔

مزید پڑھیں: عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال

بعدازاں 23 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر ابتدائی طور پر حمزہ شہباز کو بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہو چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں