سری لنکا کی بحران زدہ معیشت 8.4 فیصد سکڑ گئی

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2022
ادارہ شماریات کے مطابق جون کے سہ ماہی میں زراعت میں 8.4 فیصد اور صنعتوں میں 10 فیصد کمی آئی ہے — فوٹو: رائٹرز/فائل
ادارہ شماریات کے مطابق جون کے سہ ماہی میں زراعت میں 8.4 فیصد اور صنعتوں میں 10 فیصد کمی آئی ہے — فوٹو: رائٹرز/فائل

سری لنکا کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق دیوالیہ معیشت دوسرے سہ ماہی میں سال بہ سال 8.4 فیصد سکڑ گئی ہے جہاں قومی معیشت اس وقت بدترین معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق معاشی بدانتظامی اور کووڈ-19 کے اثرات کی وجہ سے ڈالر کی شدید قلت ہے اور شہریوں کو خوراک، ایندھن، کھاد اور ادویات سمیت ضروری درآمدات کی ادائیگی کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں تاریخ کا بد ترین معاشی بحران

رپورٹ کے مطابق سری لنکا اس وقت 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن کا شکار ہوا، رواں سال جولائی میں مشتعل مظاہرین نے اُس وقت کے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے گھر کے باہر احتجاج کیا، جس کے بعد گوٹابایا راجاپکسے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہوگئے تھے۔

سری لنکا کے محکمہ شماریات کے مطابق جون کی سہ ماہی میں زراعت میں 8.4 فیصد اور صنعتی پیداوار میں 10 فیصد کمی آئی ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں کووڈ-19 کی وجہ سے ملکی معیشت پہلے ہی کمزور ہوچکی تھی، جس کے بعد رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں ملکی معیشت 1.6 فیصد سکڑ گئی ہے۔

سری لنکا کے مرکزی بینک نے 2022 میں معیشت تقریباً 8 فیصد تک سکڑ جانے کا تخمینہ لگایا ہے، مہنگائی میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے اور جنوری سے اب تک سری لنکن روپیہ ڈالر کے مقابلے اپنی نصف قدر کھو چکا ہے۔

مزید پڑھیں: سری لنکا کی ابتر صورتحال میں امریکا کا کتنا ہاتھ ہے؟

حکومت کے پاس اہم درآمدات کے لیے غیر ملکی کرنسی کی قلت کے باعث معیشت کو بڑا دھچکا لگا۔

کووڈ-19 سری لنکا کی سیاحت کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا اور بیرون ملک مقیم سری لنکن شہریوں کی ترسیلات میں کمی آئی کیونکہ یہ دونوں چیزیں غیرملکی زرمبادلہ کے حصول کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

راجاپکسے کی حکومت پر غیر پائیدار ٹیکس کٹوتیاں متعارف کرانے کا الزام تھا، جس کی وجہ سے حکومتی قرضوں اور ملک کے معاشی بحران میں شدید اضافہ ہو۔

سری لنکا کے مجموعی بیرونی قرضوں کا 10 فیصد حصہ چینی قرضے ہیں، جس پر بحران کے حوالے سے جزوی الزام عائد کیا جارہا ہے۔

یہ اعدادوشمار ایسے موقع پر جاری کیے گئے ہیں جب چین کی جانب سے دیے گئے 11 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی لاگت سے بنا لوٹس ٹاور عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سری لنکا کی بحرانی صورتحال موروثی سیاست کا نتیجہ ہے؟

سری لنکا میں پیٹرول کی شدید قلت کی وجہ سے شہریوں کو طویل قطاروں میں انتظار کرنا پڑا تاہم ایندھن کے آنے کے بعد قطاروں میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ نے رواں سال اگست میں خبردار کیا تھا کہ سری لنکا میں بچوں کی نصف آبادی کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے فوری امداد کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں