عدالت نے نظریہ ضرورت دفن کر کے جمہوریت کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا، چیف جسٹس

24 ستمبر 2022
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا کام آئین کے تحت ریاست اور شہریوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا کام آئین کے تحت ریاست اور شہریوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت کا کام ریاست اور شہریوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہے اور عدالت نے نظریہ ضرورت دفن کر کے جمہوریت کے قیام میں سپریم کردار ادا کیا۔

اسلام آباد میں منعقد دو روزہ 9ویں بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے متاثرین کے لیے بینک اکاؤنٹ بنایا گیا ہے، جس میں مجھ سمیت کانفرنس کے شرکا عطیات جمع کرائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا بنیادی ادارہ ہیں، یوسف رضا گیلانی کیس میں واضح ہے کہ عدالتیں قانون کی حکمرانی آئینی بالادستی سے قائم کر سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت آئین کی کمانڈ پر کام کرتی ہے اور عدالت کا کام ریاست اور شہریوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہے، اس لیے عدالت نے نظریہ ضرورت دفن کر کے جمہوریت کے قیام میں سپریم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے تحریک عدم اعتماد میں اسمبلیوں کی تحلیل غیر قانونی قرار دیا، سپریم کورٹ کی وجہ سے ملک نے پہلی بار ایک دور حکومت کے دوران اقتدار کی پرامن منتقلی دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ خالص سیاسی تنازعات عدالت میں نہیں بلکہ سیاسی بات چیت اور بحث سے حل ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو اس وقت موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے، حالیہ سیلاب نے ایک تہائی ملک کو نقصان پہنچایا ہے، بہت بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے حالیہ سیلاب کے بعد انتظامیہ اور مقننہ کو جاگ جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ نے 2019 میں بڑھتی آبادی پر ازخود نوٹس لیا لیکن بدقسمتی سے اس پر پیش رفت نہیں ہوئی مگر ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی پر عدالت ترجیحی بنیادوں پر دوبارہ کام کرے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملکی اداروں میں تعیناتیاں شفاف اور میرٹ پر کرنے کو یقینی بنایا ہے اور بنائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ڈی جی خان سیمنٹ کیس میں اہم فیصلہ دیا، انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی قیادت کو آپس میں بات چیت کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی عدلیہ کی ترجیح ہے،کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کو عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے محفوظ کیا، مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے عدلیہ نے وفاقی حکومت کو احکامات جاری کیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ بار کا فیصلے سے نظریہ ضرورت کا راستہ بند کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح آنے والی نسلوں کیلئے کرنی ہے، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک میں قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا مگر سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دیا، اسی طرح ڈپٹی اسپیکر پنجاب نے آئین سے متصادم رولنگ دی مگر عدالت نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو بھی کالعدم قرار دے کر آئین کا نفاذ کیا۔

کانفرنس کی آرگنائزر کمیٹی کے چئیرمین سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں شریک تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کانفرنس کا مقصد دنیا کے عدالتی خیالات کو پیش کرکے عدلیہ اور سولین کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم قدرتی آفات کو روک نہیں سکتے مگر اقدامات سے ایسی آفات کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ بہت بڑا ہے، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ

اس دوران چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اراکین کے ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ’ٹی پارٹی‘ بن جائے گی، چیف جسٹس

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے کہا کہ جب بھی عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوٹس جاری کیے لاپتا افراد اپنے گھروں میں پہنچا دیے گئے۔

چیف جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیدار عدالت کے طلب کرنے کے باوجود پیش ہو کر تعاون نہیں کرتے، تمام اداروں کے لیے یہ صحیح وقت ہے کہ لاپتا افراد کا معاملہ حل کیا جائے۔

بطور ادارہ ہائیکورٹ میں بھی کمی و کوتاہی ہوسکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کے قیام میں عدلیہ کے کردار کو بہتر کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے ججوں سے مشاورت کی، بطور ادارہ ہائی کورٹ میں بھی کمی کوتاہی ہوگی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدلیہ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت منتخب سیاسی نمائندگان کو نااہل بھی کیا،تاریخ اچھے اور برے تمام فیصلوں کو یاد رکھے گی، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری عدلیہ اپنی غلطیوں کو نہ دہرائے۔

مزید پڑھیں: جبری گمشدگیوں میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا تاثر ختم کریں، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہت سے لوگ عدلیہ کو طاقت ور حلقوں میں شمار کرتے ہیں، طاقت ذاتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ متعدد کیسز میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، عدلیہ کے فیصلے سیاست سے ہٹ کر ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام جج آئین اور اپنے حلف کی پاسداری کریں تو مسائل ختم ہوجائیں گے، عدلیہ میں تقسیم ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اورعدلیہ ہمیشہ پارلیمان کا احترام کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ پر زیر التوا مقدمات کا بوجھ ہے، عدلیہ کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے مگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بہتری لانے کے لیے عوامی رائے لینے کا آغاز کردیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک سول جج صبح 8 بجے سے لے کر شام تک کام کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کیسے کہہ سکتے ہیں کوئی آرمی چیف محب وطن ہے یا نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام بہتر کرے تو عدالت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، نظام انصاف میں بہتری لانے کے لیے ایگزیکٹیو سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین پر حلف اٹھا کر مارشل لا کے نفاذ کو جائز قرار دینے کے فیصلے دیے گئے، عدلیہ نے ذوالفقار بھٹو کے خلاف ایسا فیصلہ دیا جس سے کبھی عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ منقسم ہوسکتے ہیں مگر عدلیہ نہیں، عدالتوں کو اس انداز سے فرائض انجام دینے چاہئیں، جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

مزید پڑھیں: لاپتا شہری کو کل پیش نہ کیا گیا تو خفیہ اداروں کے حکام کو طلب کریں گے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ نے ٹرانس جینڈر کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ دیا، عدلیہ نے اقلیتوں کے حقوق سمیت اسکولوں سے متعلق اہم فیصلے دیے، اسی طرح عدلیہ نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدلیہ نے جمہوری بالادستی کے لیے اہم فیصلے دیے، عدلیہ نے اسمبلیوں کی بحالی کا فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیس کا فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ نے رولنگ کیس میں آئین کی درست تشریح کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں