لاپتا شہری کو کل پیش نہ کیا گیا تو خفیہ اداروں کے حکام کو طلب کریں گے، جسٹس اطہر من اللہ

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2022
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ ناقابل برداشت ہے — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ ناقابل برداشت ہے — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا شہری کو بدھ کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے حکام عدالت کے سامنے پیش ہو کر ریاست کی ناکامی کی وضاحت کریں گے۔

اسلام آباد سے لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، جہاں عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: کراچی: لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں شور شرابا

دوران سماعت آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا شہری حسیب حمزہ کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوکر کہا کہ آئی جی صاحب، یہ ناقابل برداشت ہے، لاپتا افراد سے متعلق پہلے ایک فیصلہ موجود ہے جس میں یہ واضح قرار دیا گیا ہے کہ شہری کے لاپتا ہونے پر آئی جی اور متعلقہ افسران ذمہ دار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عدالت اب اس فیصلے کے مطابق ہی کارروائی کرے گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس کو کل 10 بجے تک لاپتا شہری کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہر ایک کو بلا کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کیس: آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز کو جواب جمع کرانے کا حکم

انہوں نے کہا کہ ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت سب پیش ہو کر ریاست کی ناکامی کی وضاحت کریں گے، شہری کی عدم بازیابی پر کل ایم آئی، آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز پیش ہوں جبکہ اسپیشل برانچ اور آئی بی کے سیکٹر کمانڈرز بھی پیش ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 23 اگست سے شہری لاپتا ہے مگر مقدمہ 12 ستمبر کو درج ہوتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ دنیا کی بہترین ایجنسیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کہ لاپتا شہری کو پیش نہ کر سکیں، اگر آپ چاہتے ہیں تو وقت دس بجے سے ساڑھے گیارہ کر دیتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب، یہ عدالت آپ پر اعتماد کر رہی ہے، وزیر اعظم پاکستان بھی لاپتا افراد کے کیسز میں ہی اس عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کیس: ایس ایس پی کی گرفتاری کا حکم

عدالت نے لاپتا شہری کو کل ساڑھے گیارہ بجے تک بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے شہری کی بازیابی کے لیے زیادہ مہلت دینے کی آئی جی اسلام آباد کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت نے بدھ کو چیف کمشنر کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

'بازیابی کیلیے درخواست'

لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست میں ان کے والے ذولفقار علی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا بیٹا ایک مزدور تھا جو لیاہ میں کام کرتا تھا۔

ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود درخواست کے مطابق درخواست میں وزارت دفاع کے ذریعے حکومت پاکستان، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس اور وزیر داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 22 اور 23 اگست کی رات 20 لوگ بغیر کسی وارنٹ کے گھر میں داخل ہوئے جن میں سے 15 افراد کو سیاح یونیفارم پہنا ہوا تھا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ گھر میں چھاپہ مارنے کے بعد ان کے بیٹے کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ 5 لیپ ٹاپ، 6 موبائل فون اور کچھ ضروری کاغذات اپنے ساتھ لے گئے۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ حالات سے پتا چلتا ہے کہ ان کے بیٹے کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، درخواست گزار اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے بھاگا دوڑا مگر ریاستی اداروں سے کسی قسم کا کوئی اطلاع نہیں ملا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت لاپتہ شہری کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرے۔ درخواست گزار نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان ذمہ داروں کی نشاندہی کرے اور شہری کو اغوا کرنے اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں