عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہوئے بھی ہوں تو وہ خود ٹھیک کریں، صدرمملکت

24 ستمبر 2022
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ذمہ دار قیادت سے قوم کی توقع ہے کہ اس بحران سے نکلیں—فوٹو: ڈان نیوز
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ذمہ دار قیادت سے قوم کی توقع ہے کہ اس بحران سے نکلیں—فوٹو: ڈان نیوز

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ بیٹھ کر قبل از وقت انتخابات سمیت دیگر مسائل پر بات کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب بھی ہوئے ہیں تو وہ خود ٹھیک کریں۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘ان فوکس’ میں گفتگو کرتے ہوئے صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں مختلف چیزوں میں ہمیشہ متحرک رہا ہوں جس چیز کی ضرورت ہو اور اس وقت میری کوشش ہے پاکستان کے حالات بہتر ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی جنگ بندی کے مشورے سے پیچھے ہٹنے پر صدر مملکت کو تنقید کا سامنا

سیاسی فیصلوں پر اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور عمران خان کے تعلق پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہوئے ہیں تو بحال کرنا ان کا کام ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اسٹیبلشمنٹ سے ایسے تعلقات خراب بھی ہونے چاہیئں، کل جو لوگ ایک پیج پر تھے اور جو لوگ آج ایک پیج پر ہیں وہ سب مل کر ایک پیج بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا سے نکلے تو معیشت سنبھلنے لگی تھی لیکن یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا میں مسائل رہے اور پاکستان کو بھی دھچکا لگا، اسی طرح دنیا کی سیاست بدلی اور پاکستان کی اپنی سیاست بھی بدلی۔

ان کا کہنا تھا کہ دو قدرتی بحران آئے، جس پر پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، ایک سیلاب اور کووڈ مکمل قدرتی ہیں اور تیسرا انسان کا پیدا کردہ یوکرین کا مسئلہ ہے، اس سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

صدرمملکت نے کہا کہ پاکستان کے سامنے ایک جنگ آئی کہ کدھر جائیں، پھر سپرپاور دباؤ بھی ڈالتی ہیں کہ ہماری طرف آئیں اور پھر خود پیدا کردہ کیفیت آگئی، جس میں پاکستان کے اندر سیاسی انتشار پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ انسان کے پیدا کردہ مسائل پر بھی قابو پانا ضروری ہے کیونکہ معیشت مشکل میں ہے، اس کے لیے کوئی آئن اسٹائن نہیں چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاست دانوں کا پیدا کردہ ہے، حکومت کی تبدیلی ہے، کیا ملک مسئلہ یہ ہے کہ 4 آدمی ادھر سے ادھر کردو اور یہ حکومت گرادو، 4 آدمی ادھر سے ادھر کردو اور وہ حکومت کھڑی کردو ، یہ قوم کا مسئلہ تو نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت کا وزیراعظم کو خط، صحافیوں کے خلاف پُرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کے اندر ایسی کیا مصیبت آئی ہے کہ ہم یہی کچھ کرتے رہیں گے، آگ گھر کو کھا رہی، بجائے آگ بھجانے کے بجائے کہہ رہے یہ کمرہ تیرا اور یہ کمرہ میرا اور اس کمرے میں تو کیسے آگیا تو میں تالا توڑ کر گھس جاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوشش کرنی چاہیے، پاکستانی قوم ایک ذمہ دارقیادت اور ذمہ دار حکومت سے توقع رکھتی ہے کہ اس خود پیدا کردہ بحران سے نکلیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اس کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھوں گا، میں سمجھتا تھا کرپشن بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کا ہم انتظام نہیں کرسکے وہ اسی طرح چل رہا ہے، ہر پارٹی کہہ رہی ہے یہ موجود ہے لیکن کوئی پارٹی اس کو حل کرنے کی کوشش کرے تو میں اس کی تحسین کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین میرے اوپر جو ذمہ داری ڈالتا ہے اس کے مطابق میری کوششیں ہیں، حالات کے بارے میں حکومت کو آگاہ کروں اور اسٹیک ہولڈرز سے بھی کہوں، جن سیاست دانوں سے میرا تعلق ہے، ان سے براہ راست کہوں گا اور جن سے براہ راست تعلق نہیں ہے ان سے میڈیا کے ذریعے بات کروں گا۔

صدر مملکت نے بتایا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچیں، تجسس ہے کہ انتخابات کب ہوں گے، میرا کہنا ہے تھوڑا وقت رہ گیا ہے، جولائی میں حکومت آئی تھی تو 5 سال پورے ہونے کے لیے 8 سے 9 مہینے رہ گئے ہوں گے۔

انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج اعلان کریں گے تو 3 سے 4 مہینے تیاری میں گزر جائیں گے اور رہ گئے مزید 3 یا 4 مہینے تو اس میں بات چیت کرکے آگے نکل جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی دنیا میں کشتی ڈانواڈول ہو رہی ہو تو کشتی میں زیادہ لوگ سوار ہوتے ہیں تو وہ کشتی الٹ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت میں فیصلہ نہیں کرسکتا لیکن لوگوں کو بیٹھا سکتا ہوں کہ بات کرو، میری سخت رائے ہے پاکستانی ہرمشکل وقت میں مل کر کام کرتے ہیں اور ایسی ذمہ دار قوم زوال کے راستے پر جائے تو میرے لیے الارمنگ ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ صرف اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل ہیں، انا کے مسائل ہیں، بات کرنے کے لیے کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا انتخابی ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران کی رائے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی بالکل واضح رائے آگئی ہے اور اس پر بات کرنے کے لیے یہ رائے ٹیبل پر ہے اور اس پر اتفاق رائے ہونا چاہیے کیونکہ یہ بہت اہمیت والی چیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہی مسائل آئین کو لپیٹ چکے ہیں، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، اس پر سیاست دانوں اور پارلیمنٹ سب کو سر جوڑ کر طے کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جو باتیں اپوزیشن نے کی ہیں، اس کو زیرغور لانا چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کس کا استحقاق استعمال کیا جائے اور کس کا نہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ اس گفتگو کے اندر لمبی کہانیاں ہو رہی ہیں لہٰذا دونوں کو بیٹھنا چاہیے کیونکہ حکومت اور پارلیمان کے باہر بیٹھی اپوزیشن نے بھی یہی کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے انتخابات، اس کے بعد معیشت اور اس کے ساتھ ساتھ سب چیزوں پر بات ہونی چاہیے۔

صدر مملکت نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف کا کام بھی کرنا ہے اور ساتھ یہ کام بھی کرنے چاہیے کیونکہ حکومت نے اپنے سارے کام نہیں روکے، اقوام متحدہ میں بھی جانا ضروری تھا، اگر ان کو یہ کہا جائے کہ اقوام متحدہ کیوں گئے ریلیف میں ہونا چاہیے تھا تو یہ بھی غلط بات ہوگی۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت عارف علوی کا احتساب ترمیمی بل پر بھی دستخط کرنے سے انکار

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے دوران قبل از وقت انتخابات کیسے کرنے ہیں، اس پر بات کریں، جس پر بات کرنا ضروری ہے، معیشت چاہتی ہے استحکام ہو۔

صدرمملکت نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا حصہ تھا لیکن سوچ پی ٹی آئی کی ہے کیونکہ میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ان کے ساتھ نکلا تھا لیکن صدر کی حیثیت سے میں پارٹی نہیں ہوں اسی لیے سب سے بات کر رہا ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں