صدر مملکت عارف علوی کا احتساب ترمیمی بل پر بھی دستخط کرنے سے انکار

اپ ڈیٹ 20 جون 2022
انہوں نے کہا کہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وسیع اختیارات کو ختم کرنے کے حوالے سے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022 بغیر دستخط وزیر اعظم آفس واپس بھجوا دیا۔

ایوان صدر کے پریس ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ان کے خیال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ یہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے جس سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج کرکے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابی ترمیمی بل بھی دستخط کرنے سے انکار کے بعد واپس بھیج دیا تھا۔

پچھلے مہینے قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بل کے علاوہ نیب ترمیمی بل کو بھی منظور کیا تھا، دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے بعد اسے قانون بننے کے لیے صرف صدر کی رضامندی کی ضرورت تھی تاہم عارف علوی نے بلز کو واپس کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا انتخابی ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

اس کے بعد حکومت نے 9 جون کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایوان بالا اور ایوان زیریں کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2022 اور نیب آرڈیننس 1999 ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیے تھے۔

مشترکہ اجلاس میں بل منظور ہونے کے بعد ایک بار پھر صدر مملکت کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا تھا، اگر صدر مملکت 10 دن میں اس بل کو منظور نہیں کرتے تو اسے منظور تصور کیا جائے گا، اس کے باوجود آج عارف علوی نے غیر دستخط شدہ بل واپس بھیج دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ صدر پاکستان کے بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ جنہوں نے بے تحاشہ دولت اکٹھی کر رکھی ہے، یہ بل ان بدعنوان عناصر کے بارے میں واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور بلاخوف و خطر اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں جن کے بارے میں پاکستانی عوام میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں الیکشن ایکٹ اور نیب ترمیمی بلز اتفاق رائے سے منظور

صدر مملکت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمزور آدمی معمولی جرائم میں بھی پکڑا جائے گا جبکہ بااثر بدعنوان عناصر کو قوم کا خون چوسنے کے مکروہ عمل کی کھلی آزادی مل جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ احتساب کے عمل کو کمزور کرنا نہ صرف خلافِ آئین ہے بلکہ پہلے سے مسائل زدہ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔

بل پر دستخط نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عارف علوی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی عناصر کا کالا دھن، جو کہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کا کھوج لگایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے نیب اور الیکشن ترمیمی بل بغیر دستخط واپس بھیج دیے

ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جو کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے۔

انہوں نے خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے ایک واقعے کا حوالہ دیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی چادر کے لیے کپڑے کے دو ٹکڑے کیسے حاصل کیے جبکہ سب کے حصے میں ایک ٹکڑا آیا تھا، چونکہ حضرت عمر کے پاس وہ کپڑا موجود تھا تو انہوں نے اس کے ماخذ کی وضاحت کی۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ یہ واقعہ احتساب کے دو بنیادی اصولوں کا تعین کرتا ہے، اول یہ کہ استغاثہ یا الزام لگانے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بات کو ثابت کرے کہ اس معاملے میں کپڑے کا ایک اضافی ٹکڑا اس شخص (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے پاس موجود ہے، دوم یہ کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔

صدر مملکت نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ فردِ جرم ثابت ہونے تک ملزم کو بے گناہ تصور کیا جاتا ہے ماسوائے یہ کہ ملزم کو ذرائع آمدن کے بارے میں ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اس نے کپڑے کا اضافی ٹکڑا، یا جائیداد، یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی؟ یہ ایسا ہی ہے کہ جب جرم کا کوئی آلہ مثال کے طور پر، ملزم کے قبضے سے بندوق ملتی ہے، تو اسے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس نے یہ بندوق کیسے حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور نیب آرڈیننس ترمیمی بل منظور

ان کا کہنا تھا کہ یہی اصول نیب آرڈیننس میں بھی موجود تھا کہ دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جبکہ دولت کے ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا مگر ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کر کے اسے کافی حد تک غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عام تاثر کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نیب آرڈیننس کے نفاذ میں خامیاں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے کہ اس کا استعمال طاقتور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات کی وجہ سے پاکستان میں احتساب کا عمل کافی حد تک غیر مؤثر ہوا، ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضہ کیا جاتا رہا تو دوسری طرف طویل عدالتی کارروائیوں اور غیر مؤثر استغاثہ نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنا، روکنا اور ختم کرنا بہت مشکل بنا دیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے، انصاف کی فراہمی مؤثر بنانے کے لیے ترامیم لانی چاہیے تھی۔

یہ بھی پڑھیں: الیکٹرانک ووٹنگ، اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم

انہوں نے کہا کہ اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا اور احتساب کے عمل کو ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا۔

عارف علوی نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانے ک بجائے بغیر کسی متبادل نظام کے احتساب کے عمل کو زمین بوس کرنا، احتساب کے عمل کو غیر مؤثر بنانے اور استحصالی اداروں اور نظام کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کمزور قوانین انصاف کے لبادے میں بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں، جو اقوام ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ نہ صرف عام آدمی کے استحصال کا موجب بنتی ہیں بلکہ معاشرے میں ناانصافی کے فروغ کا بھی باعث بنتی ہیں۔

انہوں نے اس امر کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاسداری کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ میں خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار رہتا ہوں، اس لیے میرا ضمیر مجھے اس بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔


نیب آرڈیننس میں ترامیم

  • چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔

  • نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔

  • چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔

  • وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے، مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔

  • کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔

  • کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔

  • احتساب عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی اور مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے۔

  • گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا۔

  • جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں